March 24, 2013

نامعلوم افراد کا معلوم پاکستان؟


نامعلوم افراد کا معلوم پاکستان؟


ایک لمحے کے لیے دل چاہتا ہے کہ سید پرویز مشرف (ایک سویلین سیاستداں) کی یہ بات مان لوں کہ انہوں نے اپنے نو سالہ دور میں ایسا کچھ نہیں کیا جو باعثِ شرمندگی ہو۔
جیسے دماغ یہ منوانے پر بضد ہے کہ صدر آصف علی زرداری کی یہ بات تسلیم کر لو کہ پانچ برس پہلے عوام سے جو وعدے کیے گئے ان میں سے نوے فیصد پورے ہو گئے اور آئندہ بھی پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو اسی طرح عوام کی خدمت کرے گی۔
میاں نواز شریف کی یہ بات مسترد کرنے کو بھی جی نہیں چاہتا کہ پاکستان میں جو تھوڑی بہت ترقی ہوئی وہ انہی کے دو ادوار میں ہوئی۔ جوہری دھماکے اور پھر عام لوگوں کے ڈالر اکاؤنٹس منجمد کرنے سمیت انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا۔
بے نظیر بھٹو بھی آخری وقت تک یہی کہتی رہیں کہ ان پر کمزور حکمرانی اور کرپشن سے آنکھیں موند لینے کے جو الزامات لگائے گئے وہ دراصل ایجنسیوں کے پروردہ خود ساختگان کی جانب سے جمہوری عمل کو کمزور کرنے کی سازش تھی ۔خرد نے کہا کہ بی بی کی بات مان لو ۔اتنی مصیبتوں سے گذر کے آنے والی عورت خامخواہ تو ایسے دعوے نہیں کر سکتی۔
میاں نواز شریف کی یہ بات مسترد کرنے کو بھی جی نہیں چاہتا کہ پاکستان میں جو تھوڑی بہت ترقی ہوئی وہ انہی کے دو ادوار میں ہوئی
غلام اسحاق خان بھی مرتے دم تک یہی کہتے رہے کہ انہوں نے دو منتخب حکومتوں کی برطرفی کا فیصلہ ملک و قوم کے عظیم مفاد میں کرتے ہوئے اپنے صوابدیدی اختیارات سے بالکل تجاوز نہیں کیا۔ ذہن کہتا رہا کہ خان صاحب سچے ہیں ۔بھلا عالم ِ نزع میں انہیں جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت۔
مردِ حق ضیا الحق تو سی ون تھرٹی کے ٹیک آف سے پہلے تک پریقین تھے کہ وہی پہلے حکمران ہیں جنہوں نے پاکستان کو اس کا بنیادی اسلامی تشخص دلایا ۔عقل غریب طیارہ پھٹنے تک اس دعوے پر اعتبار کیے رہی اور آج تک کرتی چلی جا رہی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو اڈیالہ جیل میں بھی اسی یقین کے تکئے پر سر رکھے رہے کہ ان کا دور فاشزم سے پاک عوامی جمہوری دور تھا۔ ستتر کے انتخابات میں کوئی دھاندلی نہیں ہوئی ۔جو بھی ردِعمل ہوا اس کے پیچھے امریکی ڈالر تھے۔شعور نے کہا کال کوٹھڑی میں بند زلفی بات تو ٹھیک ہی کر رہا ہے۔
حتی کہ سوچ نے یحییٰ خان کی یہ دلیل بھی تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد تسلیم کر لی کہ انہوں نے مشرقی پاکستان کو جامِ شراب میں نہیں بلکہ مشرقی پاکستان کے حالات نے انہیں شراب میں ڈبو دیا۔ اگر وہ ایسے ہی بے حس ہوتے تو ایک آدمی ایک ووٹ کی بنیاد پر ملکی تاریخ کے پہلے عام انتخابات کیوں کرواتے؟ میں معافی مانگوں؟ کس بات کی؟
مجھے تو ایوب خان کا دور بھی بہت یاد آتا ہے۔ دس برس کے سنہرے دور میں بس یہی سننے کو ملا کہ پاکستان ایشیا کی سب سے تیزرفتار سیکولر صنعتی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے۔میری یاد آئے گی میرے جانے کے بعد۔۔۔
مجھے تو ایوب خان کا دور بھی بہت یاد آتا ہے
اور ایوب خان سے پہلے سکندر مرزا ہو کہ غلام محمد۔خواجہ ناظم الدین ہوں کہ لیاقت علی خان۔ محمد علی بوگرہ ہوں یا چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی، فیروز خان نون یا آئی آئی چندریگر ۔
سب کا دور ان سب کے نزدیک بے داغ ، ترقی پسند، مخلص اور شاندار رہا۔کسی کے پائے استقامت میں کوئی لغزش نہیں آئی ۔کسی سے کوئی غلطی نہیں ہوئی۔۔۔غلطی تو کجا بھول چوک تک نہیں ہوئی۔سب کا زمانہ ایک شاندار زمانہ تھا جس پر ان کے ساتھ ساتھ بقول ان کے پاکستان کو بھی فخر کرنا چاہیے اور تاریخ میں ان کا نام سنہرے پانی سے لکھا جانا چاہیے۔
اگر یہ سب ہی بہترین تھے، بہترین ہیں اور آگے آنے والے بھی اسی قماش کے بہترین ہوں گے تو پھر پاکستان کی بلاد کاری حالت کس نے بنا ڈالی۔۔۔
تو کیوں نا یہ الزام بھی نامعلوم افراد پر ڈال دیا جائے۔۔۔

No comments:

Post a Comment