April 3, 2013

!بزرگ بچائیں گے پاکستان Wednesday 3 April 2013



السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.











السٹریشن — خدا بخش ابڑو –.
پاکستان کی عمر خیر سے پینسٹھ (65)برس ہو گئی تاریخ عالم میں اس کی حیثیت ابھی تک ایک نوزائیدہ بچے جیسی ہے۔ گو کہ اس بچے کو دنیا کی ہر وہ بیماری جو وجود رکھتی ہے۔ لاحق ہو چکی ہے۔ ایسے وقت میں جب اس بچے کو IMF اور ورلڈ بینک کے جہازی قسم کے انجکشن لگائے جا رہے ہیں، چند فرشتہ صفت بزرگان میدان میں کود پڑے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اب وہ پاکستان بچائیں گے۔
ان بزرگوں میں سب سے پہلا نام ہمارے نگراں وزیراعظم جناب میر ہزار خان کھوسو کا ہے جو اپنی زندگی کی پچاسی(85) بہاریں دیکھ چکے ہیں اور اس پیرگی میں ان کے جوش اور شوق کا یہ عالم ہے کہ میڈیا کے سامنے ان کے چہرے پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ کھیل رہی ہوتی ہے۔ جو شاید لوگوں سے کہہ رہی ہوتی ہے’’بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے‘‘
دوسرے نمبر پر جن بزرگ کا نام آتا ہے وہ ہیں چیف الیکشن کمشنر اور ہم سب کے پیارے فخرو بھائی(فخرالدین جی ابراہیم) جو وزیر اعظم صاحب سے محض دو سال کم سن ہیں مطلب تیراسی(83) سال کے ہیں۔ یہاں ہمارا مطلب محض عمر کا تقابل کرنا ہے۔ نیکی اور بدی کا نہیں۔ فخرو بھائی کو ایک بزرگ نے دعا دی تھی تم اس وقت تک زندہ رہو گے جب تک پاکستان میں صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد نہ کروا لو۔ فخرو بھائی اگر زندہ رہنا ہے تو سوچ لیجئے۔
چاروں صوبوں کے نگران وزرائے اعلیٰ میں کوئی بھی ایسا نہیں جس کی عمر60 سال سے کم ہو۔ یہ تمام بزرگ ہستیاں کمر بستہ ہیں کہ اس بار نگراں حکومت کے دامن پر جانبداری کا داغ نہیں لگنے دیں گے ان میں سب سے دلچسپ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ جناب نجم سیٹھی صاحب ہیں یہاں میں وضاحت کر دوں سیٹھی ان کے نام کا حصہ ہے وہ ابھی بالکل سٹھیائے نہیں ہیں۔1952میں تو وہ پیدا ہوئے تھے۔ دیکھیں غلط بات نہ سوچیں۔۔۔وہ شکل سے 70 سال کے لگتے ہیں لیکن ہیں وہ ساٹھ سال کے۔ کچھ لوگ ضرورت سے زیادہ اپنا دماغ استعمال کرلیں تو نجم سیٹھی صاحب جیسے نظر آنے لگتے ہیں۔
نجم صاحب تو بزرگوں کے مشن شفاف الیکشن کراؤ پاکستان بچاؤ پر چلے گئے ان کے ساتھ ٹی وی پروگرام کرنے والے منیب کی حالت خراب ہے سنا ہے نجم صاحب کے فراق میں کھانا پینا چھوڑ دیا ہے اور رو رو کر چینل والوں کا ناک میں دم کر دیا ہے۔ اللہ نجم صاحب کو کامیاب کرے اور جلد سے جلد انہیں منیب کے پاس واپس بھیج دے۔
بزرگی صرف نگرانوں پر ختم نہیں ہوئی ہمارے سیاستدان بھی عمر کی ان حدود کو پار کر چکے ہیں جن کے بعد پاکستان میں عام لوگ مرحوم کہلائے جانے لگتے ہیں۔ ہمارے ملک میں عوام اور سیاستدانوں کی اوسط عمروں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ایک عام مرد اور عورت کی اوسط عمر پاکستان میں ساٹھ باسٹھ سال ہوتی ہے۔ جبکہ ہمارے سیاستدان 60سال کی عمر میں یا تو سیاست شروع کر تے ہیں یا ان کی سیاسی بلوغت 60سال کی عمر میں ہوتی ہے۔
سیاستدانوں کے لمبے عرصے تک حیات رہنے کا راز حرام کا مال ہرگز نہیں ہے اور نہ ہی آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا ظالم آدمی کی رسی دراز کر دیتا ہے۔ یہ راز پنہا ہے اس عزم ، نیک نیتی اور بلند ہمتی میں۔ ہمارے سیاستدانوں میں قوم کی خدمت کرنے کا جذبہ انہیں طویل عرصے تک زندہ رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ حالیہ سالوں میں بزرگ ترین سیاست دان جن کا انتقال ہوا وہ پیر پگارا تھے جن کا چوراسی برسی کی عمر میں انتقال ہوا۔ مرحوم کی عمر جب76 برس تھی تو انہوں نے اپنی آخری شادی کی۔ اندازہ لگائیے ہمارے سیاستدانوں کی بلند ہمتی کا!
ہمارے مقبول ترین سیاسی رہنما میاں نواز شریف کی عمر تریسٹھ(63)عمران خان ساٹھ(60)، الطاف حسین انسٹھ(59)اور آصف زرداری کی ستاون (57)برس ہے۔ مطلب ہمارے مقبول سیاسی رہنما ابھی ایک طویل عمر رکھتے ہیں۔ عوام کی خدمت کرنے کے لئے گو ان کی یہ عمریں کاغذات کی حد تک ہیں اصل میں تو وہ پورے بزرگان سیاست بن چکے ہیں۔ اسفند یار ولی صاحب کے بال ویسے ہی اتنے سفید ہو چکے ہیں کہ اب وہ قصہ چہار درویش کا کوئی کردار معلوم ہوتے ہیں۔ اب رہ گئے منور حسن اور مولانا فضل الرحمان صاحب۔ ان حضرات نے تو اتنے لوگوں کی دعائیں لی ہیں ۔۔کہ بھنویں سفید ہونے تک انہیں کوئی خطرہ نہیں ۔
جب پاکستان کا مستقبل ان بزرگوں کے ہاتھوں میں ہے تو ہمارے نوجوان کیا کر رہے ہیں؟ ہمارے نوجوان وہی کر رہے ہیں جو ہمارے بزرگ اپنی جوانی میں کرتے تھے۔ مطلب شادی کا انتظار. اور جو شادی شدہ ہیں ۔۔چلیں چھوڑیں۔۔ اب شادی شدوں کا حال کیا پوچھیں؟ قبرکا حال تو مردہ ہی جانتا ہے۔
خدا ہمارے بزرگ مسیحاؤں کی عمر دراز کرے! ان کا سایہ ہماری قوم پر صدا رہے۔ یہ بزرگان دین مطلب بزرگان سیاست ہی قوم کے نجات دہندہ ہیں۔

No comments:

Post a Comment