November 25, 2013

طالبان سے مزاکرات ھونے چاھين يا نھين ايک تجزيا آپ کی رائے اھم ھے ھم کس طرح اس مصيبت سے نکل سکتے ھي



بڑی دلچسپ بریکنگ نیوز ہے۔ ہمارے کئی دانشور جو ہر قسم کے ’طالبان‘ سے مذاکرات کے مخالف تھے کہ ۔۔۔ ’’دہشت گردوں سے مذاکرات کے کیا معنی؟‘‘۔۔۔ اب وہ ’افغان طالبان‘ سے مذاکرات کے حامی ہوگئے ہیں۔کیوں نہ ہوں؟ افغانستان کے طالبان کے ساتھ بارہ تیرہ برس سے جنگ کر کر کے ’’عسکری اور اقتصادی سطح پر زخم زخم‘‘ ہوجانے والا امریکا جو، ان سے مذاکرات کرنے کاقائل ہوگیا ہے۔ایک صاحب نے تو ایک دن سویرے سویرے یہ اطلاع بھی دے دی کہ افغانستان کے طالبان ’’مجاہدینِ آزادی‘‘ ہیں۔ اُن کے ملک پر ’’غیر ملکی افواج‘‘ قابض ہیں۔ (’غیر ملکی افواج‘ کا نام لے لینے سے نکاح ٹوٹ جانے کا خطرہ اب بھی لاحق ہے)۔ اپنے ملک کو غیر ملکی قبضے سے چھڑانا افغانوں کا حق بنتا ہے۔(اطلاع ختم ہوئی) ہم ’افغان طالبان‘ کو مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ وہ جو ’مجاہدین‘ سے ’دہشت گرد‘ ہوگئے تھے، اب ہمارے دانشوروں نے اُن کا سابقہ لقب بحال کردیا ہے۔ وہ ایک بار پھر ’مجاہدین‘ کے منصب پر فائز ہو گئے ہیں۔ ’مجاہدین آزادی‘ کے منصب پر۔

امریکا اگر افغانستان کے طالبان سے اُسی وقت مذاکرات کا قائل ہوگیا ہوتا جس وقت ملا عمر نے امریکا سے مطالبہ کیا تھا کہ اُسامہ بن لادن کے خلاف دہشت گردی کے عدالتی ثبوت فراہم کردیے جائیں تو ہم اُنھیں امریکاکے حوالے کردیں گے۔ تب ہمارے دانشور بھی امریکا اور افغانستان میں مذاکرات کے قائل ہی ہوتے۔ مذاکرات کے ایجنڈے کے طور پر دوسرا مطالبہ ملا عمر نے یہ کیا تھا کہ (امریکا کی طرف سے اُنھیں عدالتی ثبوت فراہم نہ کرنے کی صورت میں) اگر کسی مسلمان ملک میں اُسامہ بن لادن پر مقدمہ چلایا جائے تب بھی ہم اُسامہ بن لادن کو اُس مسلمان ملک کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہیں۔ مگر امریکا اُس وقت زعمِ خدائی کے نشے میں دھت تھا۔ اپنے آپ کو وحدہٗ لاشریک طاقت سمجھتاتھا۔ ’طالبان‘ نے سارا نشہ ہرن کردیا۔اُس وقت اُس کا خیال یہ تھا کہ ’طالبان‘ سے مذاکرات کی کوئی ضرورت نہیں۔ اُن پر صرف حملے کی ضرورت ہے۔سواُس نے حملہ کر دیا۔ ملا عمر نے حکومت چھوڑ دی مگر جس شخص کو ’پناہ‘ میں لیا تھا اُسے چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ نہ اپنے ہاتھوں سے اُسے دشمن کے حوالے کیا۔اُنھوں نے اقبالؔ ؒ کی اِس ہدایت پر حرف بہ حرف عمل کیا کہ:

اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے، جائے!
تو احکامِ حق سے نہ کر بے وفائی

ایک ایسا شخص جس پر کسی عدالت سے جرم ثابت ہی نہیں ہوا، اُس پر سے اپنی پناہ اُٹھا کراُسے شقی القلب کفار کے حوالے کیوں کیا جائے؟ امریکا کے جرائم البتہ ثابت ہوتے چلے آرہے ہیں۔ جن لوگوں کو کنٹینروں میں ’’دم گھونٹ گھونٹ‘‘ کر گوانتا نامو بے لے جایا گیا اُن میں سے بھلا کس پر جرم ثابت ہوا؟ جرم نہیں ثابت ہوا مگر اُنھوں نے کیسی کیسی بھیانک سزائیں بھگتیں؟ہر شخص کی الگ الگ داستان ہے اور ہر داستان کا ہر صفحہ رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے۔پرویز مشرف نے ’’جنیوا کنونشن‘‘کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے افغانستان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو ’’سفارتی استثنا‘‘ رکھنے کے باوجود خود گرفتار کر کے امریکا کے حوالے کیا اور امریکا عالمی قوانین کی دھجیاں اُڑاتا ہوا اُن کو گوانتا نامو بے لے گیا۔ وہ چار سال کے شدید اور اذیت ناک عذابِ مسلسل کے بعد ’’بے گناہ‘‘ قرارپائے اوررہا کردیے گئے۔ اُن کی داستان، جس کا ترجمہ عبدالصمد صافی نے ’’اژدہا کے منہ میں چار سال‘‘ کے عنوان سے کیا ہے ،پڑھیے تو پڑھی نہ جائے۔ملا ضعیفؔ نے جو کچھ پیش لفظ میں لکھا ہے اُس کا لب لباب بقولِ کلیم عاجزؔ یہ ہے :

گزری ہے جو کچھ ہم پر، گر تم پہ گزر جاتی
تم ہم سے اگر کہتے، ہم سے نہ سنا جاتا

بغیر عدالتی ثبوت کے اور بغیر مقدمہ چلائے کسی کو محض امریکا کے کہے پر مجرم سمجھ کر اُسے امریکا کے حوالے کردینے کے نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ہم اس وقت ایک ایسے خوفناک ’’استعماری دور‘‘ سے گزر رہے ہیں جس کا خاتمہ ہونا باقی ہے۔ہمیں یقین ہے کہ جب اس دور کا خاتمہ ہوگا تو ہمارے بہت سے دانشوروں کا نام تاریخ میں میر جعفر اور میر صادق کے ناموں کے ساتھ Enlist کیا جائے گا۔ مذکورہ دونوں ’دانشوروں‘ کو بھی غالباً یقین نہ تھا کہ یہ قابض و غاصب ’گورے آقا‘ کبھی زوال کا بھی شکار ہو سکتے ہیں۔ ابھی تو امریکا نے صرف ایک پلٹا کھایا ہے تو ہمارے دانشورساتھ ساتھ پلٹ گئے۔اگر وہ پلٹیوں پر پلٹیاں کھانے لگا تو ان کا بھی یہی حال ہوگااوران کے اِس رقصِ بسمل کا تماشا سب دیکھیں گے۔

کیا آپ نے نہیں سنا اُس بادشاہ کا قصہ جس نے اپنے دربار میں کچھ ایسے ہی دانشور پال رکھے تھے۔بادشاہ ایک روزکہنے لگا:
’’بیگن بھی کیا عمدہ ترکاری ہے!‘‘
یہ سن کرایک دانشور بولا:
’’ہاں سرکار! رنگ دیکھیے کتنا خوش نُماہے‘‘۔
دوسرابولا:
’’اس کی جلد کیسی چمکیلی، ملائم اور نرم ہے‘‘۔
تیسرابولا:
’’دیکھیے سرکار کہ اُس کے سرپرکتنا خوب صُورت تاج سجایاگیا ہے‘‘۔
اِتنے میں بادشاہ نے اپنا ذہن بدل لیا۔بولا:
’’مگر اِس کے کھانے سے قبض ہوجاتاہے‘‘۔
پہلا دانشور بولا:
’’تب ہی تو رُوسیاہ ہے!‘‘
دوسرا دانشور بولا:
’’اس کایہ پھسلواں پھسلواں چھلکا۔۔۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ چھال ہے یا ربڑ؟‘‘
تیسرے دانشور نے نقص نکالا:
’’جی سرکار! تبھی تو قُدرت نے اسے شاخ پر اُلٹالٹکایا ہواہے‘‘۔
بادشاہ بھڑک اُٹھا:
’’تُم کیسے دانشور ہو؟ ایک بات پر قائم نہیں رہتے۔ میں بیگن کی تعریف کروں تو تعریف کرتے ہو۔ میں تنقیص کروں تو تم بھی نقائص نکالنے لگتے ہو‘‘۔
پہلادانشور ہاتھ جوڑ کربولا:
’’حضور! ہم سرکار کے نمک خوار ہیں، بیگن کے نہیں!‘‘

یہ قصہ ہم نے خان صاحب کو سنایا تو کہنے لگے:

’’اصل   میں یہ سب ’چڑھے ہوئے سورج‘ کے پجاری ہیں۔ایک محاورے کے پشتو ترجمہ کے مطابق کامیابی کے سینکڑوں باپ اورہزاروں خاوند ہوتے ہیں، جب کہ ناکامی نہ صرف یتیم و یسیرہوتی ہے بلکہ مطلقہ بھی ‘

No comments:

Post a Comment