“بھول جانا عادت پرانی ہے”
جو قومیں اپنے ماضی سے نا آشنا ہوتی ہیں وہ اپنے حال سے بے پرواہ اورمستقبل سے بھی بے فکر ہوتی ہیں، اس دنیا میں جتنی قومیں تباہ ہوئیں ان میں ایک بات مشترک تھی ان سب کیلئےان کا ماضی اجنبی تھا اسی اجنبیت کی دیوار نے ان کی بصارتوں سے ان کے پچھلوں کی بربادی کا منظر چھپائے رکھا تھا.
وہ کبھی دیوارکے پیچھے کا منظر نہیں دیکھ سکے اور وہی غلطیاں دہراتے رہے جو ان کے آباء نے کیں تھیں،چونکہ ان کا عمل یکساں تھا اس لئے ان کا انجام بھی مختلف نہیں ہوا،نہ جانے کتنی ایسی قومیں ہیں جن کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں بھی نہیں ملتا ،کبھی کہیں کھدائی ہوتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ اس زمیں پر برسوں پہلے ایک بستی بھی آباد تھی ،کچھ ڈھانچے ملتے ہیں ،کچھ زیورات ملتے ہیں لیکن کہیں کوئی سراغ نہیں ملتا کے پتہ چلے یہ کون لوگ تھے اور کیسے ختم ہوگئے،بس ان کھنڈرات میں سیاح گلے میں کیمرہ لٹکائے شارٹس پہنے تصویریں کھینچتے نظرآتے ہیں۔
گزشتہ نصف صدی سےہم بھی باقاعدہ طورپربھول جانےکی رسم مناتے رہے ہیں اور پوری ایمانداری سے اسے نسل در نسل منتقل بھی کرتے آئے ہیں،جو ہم سے پہلے گزر گئے ان پر جو گزرا انھوں نے بھلا دیا،یہاں قائد اعظم ؒ کی بہن محترمہ فاطمہ جناح ؒ کو جب ایوب خان نے دھاندلی کے ذریعے شکست دے دی تو ایوب خان کے بیٹے نے شہر سے خواجہ سراؤں کو اکھٹا کیا ان کے بال سفید کئے اور ہاتھوں میں لالٹین تھما دی(لالٹین محترمہ فاطمہ جناح کا انتخابی نشان تھا)
ان خواجہ سراؤں کو شہر بھر میں پھرایا گیا محترمہ کی تذلیل کی گئی اور عوم دیکھتے رہے،محترمہ فاطمہ جناح عوام سے خطاب کرنے ریڈیو اسٹیشن پہنچیں تو ایوب خان کے حکم پر ریڈیو کی نشریات روک دی گئی،محترمہ تقریر کرتی رہیں لیکن وہ تقریر صرف محترمہ نے ہی سنی وہ الفاط کسی اور کی سماعتوں سے نہیں ٹکرائے، لیکن یہ سب کچھ عوام نے ایسے بھلا دیا جیسے سلیٹ پر لکھے الفاظ مٹا دیے جاتے ہیں۔
پھرکسی نے وٹی ،کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تو اس کے پیچھے پیچھے بھاگنے لگے ،جب نہ روٹی ملی نہ کپڑا اور نہ مکان توامید باندھ لی کے روٹی کپڑا اور مکان وہ نہ دے سکا تو کیا ہوا اس کی بیٹی ضرور دے گی ،پھر اس کی بیٹی کو ڈھول بجا بجا کر اقتدار میں لے آئے روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر بد ترین کر پشن ہوتی رہی ۔جب روٹی کپڑا اور مکان کا ڈرامہ تمام ہوا تو جنرل ضیاء سے خصوصی ٹریننگ لے کر سیاست جوائن کرنے والے میاں صاحب کے پیچھے ہولئے ایک پل میں سب بھلا دیا جو جنرل ضیاء کے دور میں ہوا تھا ،عمل پرانا تھا اسلئے انجام کیا نیا ہونا تھا وہی ہوا جو ہوتا آیا تھا ،پھر باری باری تیر اور شیر عوام کو چیرتے پھاڑتے رہے ،لیکن ہر بار عوام ان کے دیئے ہوئے زخم کو ٹانک کر بھول گئی کے یہ زخم تیر اور شیر نے ہی دیئے ہیں ۔
پھر مشرف کوبادشاہت کا شوق ہوا تو اس نے تیر کو دبئی اور شیر کو سعودیہ پہنچا کربادشاہت شروع کردی عوام نے مشرف کو نجات دہندہ سمجھ لیا اور یہ بھلا دیا کے جس قبیلے سے مشرف صاحب آئے ہیں اس قبیلے کے سرادروں نے اس قوم کےساتھ پہلے کیا کیا ہے،ایوب خان ،یحیٰ خان اورضیاء الحق کے اس جانشین نے سب ہی کو مات دے دی ،لال مسجد ،جامعہ حفصہ پر حملے نے مذہبی انتہاء پسندی کو بامِ عروج پر پہنچا دیا ،ڈرون حملے کرنےکا لائسنس دیا ،یہ مشرف صاحب ہی تھے جو 12 مئی میں ہوئے خون خرابے کے بعد اسلام آباد میں مکا ہوا میں لہرا کر کہہ رہے تھے یہ عوام کی طاقت ہے،انہی مشرف صاحب کے پیدا کردہ حالات کی وجہ سے اس ملک پر وہ وقت آیا کہ تیر کا دور اس ملک میں واپس آگیا لیکن محترمہ بینظیر بھٹو کے بعد یہ تیر اب پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک ہوچکا تھا پھر اس تیر کو زہرآلود کر کے روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر چلا دیا گیا ۔
ان تمام واقعات کو بیان کرنے کا مقصد بے وجہ تنقید نہیں بلکہ لاشعوری طور پر بھول جانے کا ڈر ہے،بھول جانا ہماری عادت ہے،ہم بڑے بڑے واقعات کو ذہن سے کھرچ کر پھینک دینے کے عادی ہیں، ہم بھی وہی کرتے جارہے ہیں جو ہم سے پہلےوالوں نے کیا تھا ہمارا اور ان کا عمل ایک سا ہے اس لئے مختلف نتیجے کی امید رکھنا محض اپنے آپ کو بہلانے سے زیادہ اور کچھ نہیں ،گزشتہ پانچ برسوں میں اس نام نہاد جمہوریت نے ہمارے ساتھ وہ سلوک کیا ہے جو شاید ہی کوئی ظالم بادشاہ بھی کرتا ،اس لئے کچھ نے پھر سے شیر سے امید لگا لی ہے تو کوئی وردی والوں کو پکار رہا ہے،ایک بار پھر بھول گئے کے وردی اور شیر نے ہمارے ساتھ پہلے کیا کیا تھا ۔
اس بار ووٹ دینے سے پہلے ضرور سوچنا ہوگا کہ کس نے کیا کیا ہے ،اپنی یاداشت میں کوئٹہ میں رکھےجنازے سنبھالنے ہونگے،ٹارگٹ کلنگ،بم دھماکے،اغواء ،جعلی دوائیاں ،حج اسکینڈل،ایفیڈرین ، لوڈشیڈنگ ،سی این جی،ریمنڈ ڈیوس کو یاداشت میں محفوط رکھ کے بیلٹ باکس کی طرف بڑھنا ہوگا ، ایک غلط فیصلہ پھرسےاس ملک کوکسی گیلانی یا راجا کےحوالے کردے گا ،جومجرم ہوکر خود کو معتبرسمجھتے ہیں ۔
اگر اس بار بھی سب بھلا دیا تو شاید ہمارا ذکر تاریخ کی کتابوں میں بھی نہ ملے ،شاید برسوں بعد کبھی ہمارے ڈھانچے کھدائی میں سے نکلیں اور اس وقت کے لوگ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر ان ڈھانچوں کے درمیاں جابجا یہ تیر اور پلاسٹک کے شیر کیوں پڑے ہیں،وہ شارٹس پہنے گلے میں کیمرہ لٹکائے ان کھنڈرات میں گھو متے ہوں جنھیں آج ہم شہر کہتے ہیں۔۔
No comments:
Post a Comment