May 29, 2013

AFGHANISTAN AND ALLAMA IQBAL


افغانستان میں اقبالؒ کی آہ و فغاں
تحریر: سید علی گیلانی
(چیئرمین حریت کانفرنس مقبوضہ کشمیر)
اکتوبر 1933ء میں علامہ مرحوم نے افغانستان کا دورہ کیا۔ بہتر یہ ہے کہ افغانستان کی سیاحت کے دوران میں جو کچھ انکے ارشادات‘ جوابات‘ احساسات اور فرمودات مثنوی کے صحفات میں زینت پا چکے ہین‘ انکے جستہ جستہ حصے ہدیہ قارئین کئے جائیں۔

علامہ مرحوم کا کلام خاص طور فارسی زبان میں بحر بے کراں ہے۔ انکا احاطہ کرنا مجھ جیسے ناتواں شخص کیلئے ناممکنات میں سے ہے۔ جیسا کہ میں نے ابتدائی سطور میں گزارش کی ہے کہ میری صرف یہ کوشش ہے کہ اقبال کی اس بنیادی صفت اور خصوصیت کو امکان حد تک بیان کروں کہ وہ فلسفی‘ بار ایٹ لا اور مغربی فلسفہ اور تہذیب و تمدن کے شناور ہونے کے ساتھ ساتھ کس طرح روح دین کے شناسا اور واقف حال تھے؟ کس طرح انہوں نے اپنے کلام میں اسلام کی اصل روح کو اجاگر کرنے اور ذہن نشین کرانے کی کوشش کی ہے؟ انکے دل میں اسلام اور ملت کیلئے کتنا درد‘ کتنا اضطراب اور کتنی بے چینی تھی؟ اس کا اندازہ ان کے فارسی کلام کے مطالعے سے ہوتا ہے۔
وہ ملتِ مرحومہ کے تابناک اور شاندار ماضی سے واقف تھے۔ ان کی نظروں میں رسالت مآب ؐ کا دورِ سعادت تھا۔ انکی نگاہوں میں قرون اولیٰ کے مسلمان تھے۔ پھر ان کی تربیت میں تشکیل پذیر وہ کردار اور سیرتیں تھیں جنہوں نے خلاف راشدہ کے مثالی دور کی نقش بندی کی تھی اور ہمہ جہت انقلاب کی داغ بیل ڈال کر تا صبح قیامت ایک بے مثال معاشرے کی تشکیل کر کے بنی نوع انسان کی آرزوؤں اور تمناؤں کو مرکز اور محور بنایا تھا۔ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی وہ مثالی دور دیکھنے میں نہیں آ رہا ہے۔ اقبال کی تمنا اور آرزو صرف یہ تھی کہ ملتِ مرحومہ اُسی مثالی دور کی یاد تازہ کر کے اور اسی کا آئینہ سامنے رکھ کر اپنا منصبی فریضہ انجام دینے کیلئے سرگرم عمل ہو جائے۔ وہ ملت کی موجودہ حالت دیکھ کر ماہی بے آب کی طرح تڑپتے تھے۔ اسکے ذہنی اور عملی انحطاط اور زوال کو دور کرنے کیلئے آتش زیرپا تھے۔ وہ ملت کی اس صورتحال کی تشخیص کر چکے تھے اور برملا کہتے تھے کہ ملت‘ قرآن اور سنت مطہرہ سے دور اور بے گانہ ہو چکی ہے اور یہی اسکے امراض کی جڑ اور کُنہ ہے۔ انہوں نے ملت کے موجودہ انتشار اور افتراق کی تصویر کشی کر کے اسکے اعتماد اور اتفاق کیلئے دردمندانہ آواز بلند کی تھی :
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئےنیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائے گا
تُرک خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر
نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی
اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہ گزر
تاخلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر
خلافتِ علیٰ منہاج نبوت کا قیام نہ صرف ملتِ مرحومہ کی بیماریوں کا علاج ہے بلکہ یہ ملت اسلامیہ کی ذمہ داری بھی ہے۔ آج کی دنیا میں انسان جس بے چینی اور اضطراب اور نوع بنوع مسائل سے دوچار ہے۔ انسان کا خون پانی کی طرح ارزاں ہے اور سارے ازم انسان کو امن و آشتی اور خوشحالی و فراغت دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ جب تک خلافت راشدہ کے صالح نظام کی بنیادوں پر وحدتِ الٰہ اور وحدتِ آدم کا تصور عام کر کے عدل و انصاف کا نظام قائم نہ ہو‘ انسان موجودہ خوں ریزی اور استحصال سے نجات نہیں پا سکتا۔ افغانستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی علامہ محمد اقبال‘ نادر شاہ مرحوم کی تُربت پر حاضری دیتے ہیں اور اپنی عقیدت‘ محبت اور ان کے اوصاف حمیدہ کی تعریف کرتے ہیں۔
نادر شاہ یقیناً اسم بامسمیٰ ایک نادر اور درویش صفت سربراہ مملکت تھے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت بے پایاں ان کی تربت پاک پر ہو۔ انکی تدابیر اور حکمت عملی کے نتیجے میں ملت مرحومہ کے اجتماعی وجود میں استحکام اور استقلال پیدا ہوا تھا۔ انکی شمشیر بُرّان دین کی حفاظت کیلئے تھی۔ علامہ اقبال کے نزدیک اس حقیقت کا واضح ادراک اور اعتراف تھا کہ مسلمان کی تلوار‘ ظلم و جبر اور انسانی حقوق کی پامالیوں کیلئے نہیں ہوتی‘ بلکہ وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ دین اسلام کے احیا کیلئے اور اسکے دئیے ہوئے عادلانہ نظام کو قائم کرنے کیلئے استعمال ہوتی ہے کیونکہ پوری انسانی برادری کیلئے اس دین مبین میں فلاح و بہبود اور امن و آشتی ہے۔
نادر شاہ مرحوم‘ حضرت ابوذر غفاریؓ کی طرح نماز میں سوز و گزار کا مجسمہ ہوتے تھے اور جب دشمن کے ساتھ مقابلہ ہوتا تھا اور کوئی معرکہ آرائی ہوتی تھی‘ انکی شمشیر کی ضرب اور کاٹ پتھروں کو بھی شق کرتی تھی۔ افغانستان کے اس بادشاہ کے زمانے میں انکی حکمرانی کے انداز اتنے حسین و جمیل تھے کہ عہد صدیقف کے انداز حکمرانی کی یادیں تازہ ہو جاتی تھیں۔ یہ علامہ اقبال کی تمناؤں اور آرزوؤں کی عکاسی ہے۔ انکے جلال اور دبدبے سے عہد فاروقی کی یادیں تازہ ہو گئیں۔
جس طرح گل لالہ کے سینے میں اس کا سایہ داغ اسکی شناخت اور پہچان ہوتی ہے‘ اسی طرح نادر شاہ کے دل میں دین مبین کا غم اور درد تھا۔ مشرق کی تاریک رات میں انکے وجود کی مثال روشن چراغ تھی۔ اس کی نگاہ میں ارباب ذوق کی مستی اور اسکی روح کا جوہر‘ سراپا جذب و شوق ہے۔ شمشیر خسروی اور درویشانہ نگاہ‘ یہ دونوں موتی لاالٰہ کے سمندر سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں۔ گویا اسلام کی بنیادی تعلیمات میں انہی کے اثر اور عمل آوری کے نتیجے میں اقتدار پر براجمان بادشاہ‘ درویش صفت متقی‘ خدا ترس‘ آخرت پسند اور انسان دوست ہوتے ہیں۔ فقر اور شاہی کا ایک ساتھ ہونا‘ یہ صرف رسول کریمؐ کی سیرت پاک اور اسوہ حسنہ کی دین اور کرشمہ سازی ہے۔ یہ برکتیں‘ رحمتیں اور سیرت و کردار کی عظمتیں صرف رسول رحمت کی ذات مبارک کی جلوہ سامانیاں ہیں۔
یہ دونوں قوتیں مومن کے کردار کی نمایاں صفات اور خصوصیات ہیں۔ دنیوی اقتدار و قوت‘ طاقت اور شان و شوکت انکی ذات‘ خاندان‘ قوم یا خدا بے زار افراد کیلئے نہیں بلکہ مجموعی طور انسان کی فلاح اور کامرانی و کامیابی کیلئے ہی حکومت کی یہ طاقت استعمال کی جاتی ہے۔ مومن کی زندگی میں قیام و سجود‘ زندگی کے دو پرتو ہوتے ہیں۔ حکومت کا اقتدار‘ انکے قیام اور سجود ان کیلئے بندگی کا مظہر اور اعلان ہوتا ہے۔ فقر‘ سوز‘ درد‘ داغ اور آرزو ہے۔ فقر کو رگ و ریشہ ایں اتارنا‘ داخل کرنا‘ آبرو مندی ہے۔ نادر شاہ نے فقر کو اپنے رگ و ریشے اور خون میں داخل کر دیا تھا۔ یہی فقر اسکی زندگی کا شعار اور نشان بنا تھا۔ اس مرد شہید‘ افغانستان کے درویش صفت بادشاہ نادر کے اس انداز فقر پر صد آفرین اور ہار بار تحسین! اے باد صبح کے تیزگام مسافر! نادر شاہ کے مرقد پر نرم رو اور سبک سر ہو کر طواف کر لے۔ وہ اپنے مرقد میں محو استراحت ہے‘ اس لئے باد صبا! اپنے قدم آہستہ آہستہ رکھ۔ تیری آمد سے جو غنچے کھل اٹھتے ہیں‘ انکی گرہیں آہستگی سے کھول۔ میری طرف سے عقیدت کے یہ پھول نچھاور کرنے کے بعد اسکی طرف سے میرے لئے فرمان صادر ہوا۔ اس فرمان شاہی نے میرے خاکی وجود میں تازہ روح اور زندگی کی لہر دوڑا دی۔
٭۔ فرمانِ شہ نادر
اے مسافر! تیری درد بھری اور پرتپش آواز سے میں جل اٹھا ہوں۔ وہ قوم کتنی خوش بخش‘ خوش نصیب اور لائق صد آفرین ہے جو تیری زندگی کے راز‘ تیرے دل کی دھڑکن‘ تیری تمنا‘ تیری آرزو اور تیرے مقاصد و اہداف سے واقف اور جانکاری رکھتی ہو۔
اے میرے عقیدت مند! تیرے اس غم دین و ملت سے ہماری قوم پوری طرح آشنا اور واقف راز ہے۔ ہماری ملت اور افغان قوم جانتی ہے کہ درد و اخلاص سے پُر یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ ہمارے آغوش سحاب میں بجلی کی طرح کڑکنے والے تیرے نور اور تیری پرسوز آواز سے پورا مشرق روشن اور تابند ہے۔
ایک طویل عرصے تک ہمارے کوہساروں میں درخشندگی اور تابناکی کا مظاہرہ کرے۔ دین اسلام اور رسول رحمتؐ کے ساتھ ہمارا ایمان‘ محبت اور عشق میں وہی تابندگی‘ استحکام اور استقلال پیدا کر دے‘ جو مطلوب و مقصود ہے۔
تم کب تک بندشوں اور حصاروں میں بندھے اور گھرے رہو گے۔ تیرا پیغام کلیمی ہے۔ تجھے سینا کی وادیوں کی تلاش میں سرگرم سفر رہنا چاہیے۔
اس نادر شاہی فرمان کے بعد اقبال افغانستان میں اپنی سیاحت کے بارے میں فرماتے 
ہیں 

’’میں نے افغانستان میں باغ‘ مرعزار اور دشت و صحرا چھان مارے‘ باد صبا کی طرح میں نے افغانستان کے پہارڑ اور ٹیلے دیکھ بھال لئے۔ درہ خیبر مردان حق آشنا سے نامانوس نہیں ہے۔ اس کے دل میں تو ہزاروں افسانے‘ واقعات اور تاریخی شواہد پوشیدہ ہیں۔ اس راہ کے نشیب و فراز اور پیچ و خم میں تو انسان کی نظر بھی گم ہو جاتی ہے۔ افغانستان کے کہساروں کے دامن میں آپ سبزہ تلاش نہ کریں۔ اس کے ضمیر میں رنگ و بو کی نمود اور اٹھان نہیں ہے۔ اس سرزمین کے چکور‘ شاہین صفت اور شاہین مزاج ہیں۔ اس سرزمین غیرت مند کے ہرن‘ شیروں سے بھی خراج وصول کرتے ہیں۔
‘‘
ان اشعار میں افغانیوں کی غیرت مندی‘ حوصلہ‘ ہمت‘ جوان مردی اور بہادری کی تعریف کی گئی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ افغانیوں نے برطانوی سامراج‘ روسی سامراج اور اشتراکی مزاج اور فلسفہ کو شکست دے دی۔ آج اقبال کے کلام بلاغت نظام کے حوالے سے افغان کا تذکرہ آ رہا ہے‘ تو افغانستان کے غیر مند عوام آج امریکی اور اس کے اتحادیوں کے ظلم و جبر‘ انسان کشی اور بدترین قسم کی سامراجی چالو اور فریب کاریوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ نیٹو کی فوجیں افغانیوں کی ہمت اور حوصلہ مندی کی بزبان حال معترف ہیں۔ بہت جلد وہ روسی سامراج کی طرح وہاں سے نکل کھڑی ہوں گی اور افغان قوم اپنا دینی اور ملی تشخص پھر بحال کرنے میں کامیاب و کامران ہو گی۔ انشاء اللہ۔ طالبان اور القاعدہ کے نام محض ایک بہانہ ہے۔ امریکی اور ان کے اتحادی سامراج کے قمابلے میں براہ راست افغان عوام معرکہ آرائی میں مصروف ہیں۔ ان کے معصوم بچے‘ خواتین اور عام شہری‘ سامراجی قونوں کی بم باری کا نشانہ بن رہے ہیں …ع
ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر 
٭۔ فرمانِ شہ نادر
اے مسافر! تیری درد بھری اور پرتپش آواز سے میں جل اٹھا ہوں۔ وہ قوم کتنی خوش بخش‘ خوش نصیب اور لائق صد آفرین ہے جو تیری زندگی کے راز‘ تیرے دل کی دھڑکن‘ تیری تمنا‘ تیری آرزو اور تیرے مقاصد و اہداف سے واقف اور جانکاری رکھتی ہو۔

اے میرے عقیدت مند! تیرے اس غم دین و ملت سے ہماری قوم پوری طرح آشنا اور واقف راز ہے۔ ہماری ملت اور افغان قوم جانتی ہے کہ درد و اخلاص سے پُر یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ ہمارے آغوش سحاب میں بجلی کی طرح کڑکنے والے تیرے نور اور تیری پرسوز آواز سے پورا مشرق روشن اور تابند ہے۔ ایک طویل عرصے تک ہمارے کوہساروں میں درخشندگی اور تابناکی کا مظاہرہ کرے۔ دین اسلام اور رسول رحمتؐ کے ساتھ ہمارا ایمان‘ محبت اور عشق میں وہی تابندگی‘ استحکام اور استقلال پیدا کر دے‘ جو مطلوب و مقصود ہے۔ تم کب تک بندشوں اور حصاروں میں بندھے اور گھرے رہو گے۔ تیرا پیغام کلیمی ہے۔ تجھے سینا کی وادیوں کی تلاش میں سرگرم سفر رہنا چاہیے۔ اس نادر شاہی فرمان کے بعد اقبال افغانستان میں اپنی سیاحت کے بارے میں فرماتے ہیں :

’’میں نے افغانستان میں باغ‘ مرعزار اور دشت و صحرا چھان مارے‘ باد صبا کی طرح میں نے افغانستان کے پہارڑ اور ٹیلے دیکھ بھال لئے۔ درہ خیبر مردان حق آشنا سے نامانوس نہیں ہے۔ اسکے دل میں تو ہزاروں افسانے‘ واقعات اور تاریخی شواہد پوشیدہ ہیں۔ اس راہ کے نشیب و فراز اور پیچ و خم میں تو انسان کی نظر بھی گم ہو جاتی ہے۔ افغانستان کے کہساروں کے دامن میں آپ سبزہ تلاش نہ کریں۔ اسکے ضمیر میں رنگ و بو کی نمود اور اٹھان نہیں ہے۔ اس سرزمین کے چکور‘ شاہین صفت اور شاہین مزاج ہیں۔ اس سرزمین غیرت مند کے ہرن‘ شیروں سے بھی خراج وصول کرتے ہیں۔‘‘
ان اشعار میں افغانیوں کی غیرت مندی‘ حوصلہ‘ ہمت‘ جوان مردی اور بہادری کی تعریف کی گئی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ افغانیوں نے برطانوی سامراج‘ روسی سامراج اور اشتراکی مزاج اور فلسفہ کو شکست دیدی۔ آج اقبال کے کلام بلاغت نظام کے حوالے سے افغان کا تذکرہ آ رہا ہے‘ تو افغانستان کے غیر مند عوام آج امریکی اور اسکے اتحادیوں کے ظلم و جبر‘ انسان کشی اور بدترین قسم کی سامراجی چالو ںاور فریب کاریوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ نیٹو کی فوجیں افغانیوں کی ہمت اور حوصلہ مندی کی بزبان حال معترف ہیں۔ بہت جلد وہ روسی سامراج کی طرح وہاں سے نکل کھڑی ہوں گی اور افغان قوم اپنا دینی اور ملی تشخص پھر بحال کرنے میں کامیاب و کامران ہو گی۔ انشاء اللہ۔ طالبان اور القاعدہ کے نام محض ایک بہانہ ہے۔ امریکی اور انکے اتحادی سامراج کے مقابلے میں براہ راست افغان عوام معرکہ آرائی میں مصروف ہیں۔ انکے معصوم بچے‘ خواتین اور عام شہری‘ سامراجی قوتوں کی بم باری کا نشانہ بن رہے ہیں …ع
ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر
پیرروم کا پیغام: رزق اللہ سے طلب کر، کسی زید یا عمر سے طلب نہ کر، مستی، جوش اور جذبہ اللہ تعالیٰ سے بندگی کا تعلق استوار کر کے حاصل کرنے کی کوشش کر۔ بھنگ اور شراب سے مستی اور نشہ تلاش مت کر، مٹی مت کھاؤ، مٹی مت خریدو اور مٹی کی تلاش میں مت پھرو کیونکہ مٹی کھانے والا ہمیشہ زرد رہتا ہے۔ دل کو تلاش کرو تاکہ ہمیشہ جاوداں وجوان رہو۔ اللہ کی معرفت سے تمہارا چہرہ گلاب کی مانند شاداب اور تازہ ہو گا اللہ کا بندہ بن کر زندگی گزارنے کا طریقہ اور راستہ اختیار کرو اور زمین پر تیز رو گھوڑے کی طرح رہو جنازے کی طرح زندگی نہ گزارو کہ جو دوسروں کی گردنوں اور شانوں پر اٹھایا جاتا ہے‘ پیرِ رومی کا پیغام پہنچانے کے بعد حکیم الامت کا کلام شروع ہو رہا ہے۔
نیلے آسمان کی شکایت مت کرو، انسان کی زندگی میں جو حادثات،واردات اور رنج و محن آتے ہیں ان کو اکثر گردش آسمان اور تقدیر سے وابستہ کیا جاتا ہے اقبال فرماتے ہیں کہ اپنی ذات کو محور بناؤ اپنی ہی ذات کے آفتاب کے گرد طواف کرنے پرقناعت کرو، آسمان کی شکایت اور گردش دوران کی شکایت لاحاصل عمل ہے۔ ذوق و شوق کے مقام سے آگاہ ہو جاؤ اگرچہ تم ذرہ خاک ہو مگر سورج اور چاند کو اپنی کمند میں لاؤ، عالم موجود، گردوپیش کی دنیا کو جاننے کی کوشش کرو اور دنیا میں اپنا پیغام اور مشن عام کرنے کی کوشش میں مگن رہو اسی طرح تم دنیا میں جانے اور پہنچانے جاؤ گے اور تمہارا آوازہ بلند ہو گا۔ کائنات کا نظام، وحدت کا مظہر ہے اس دنیا میں وحدت سے ہی زندگی قائم ہے۔ ’’ اللہ کے دین کی رسی کو مضبوطی کیساتھ پکڑے رکھو، الگ الگ راستے اختیار مت کرو‘‘ (آل عمران 103-3)
رنگ، زبان، نسل، وطن اور ذات پات پرانے بتوں سے نجات حاصل کرو دور جاہلیت کی نفسانی خواہشات اور رسم ورواج سے پناہ مانگو جاہلیت کی ان رسموں کی قیمت اور حقیقت جُو کے دو دانوں کے برابر بھی نہیں ہے تازہ آرزوؤں کی نقش بندی کرو۔ آخری دین جس کے بارے میں فرمان الٰہی ہے:
’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے ‘‘ (المائدہ 3-5) انسان کی زندگی، آرزو پر بنیاد اور اساس رکھتا ہے اپنے آپ کواپنی پاکیزہ تمناؤں اور اعلیٰ آرزوؤں کے حوالے سے پہنچانو جیسے معروف اور متد اول قول ہے:
دُنیا بہ اُمید قائم است!
مومن اور بندہ حق کی امید اور تمنا اللہ کی رضا، خوشنودی اور اسکے دین کی سربلندی، دنیا کی کامرانی اور آخرت کی فلاح ہے اس کیلئے اللہ کا بتایا ہوا راستہ اختیار کرنا ہی مطلوب و مقصود ہے۔ انسان کی آنکھیں، کان، ہوش و حواس، آرزو سے ہی متحرک اور زندہ رہتے ہیں یہ مشت خاک، اولادِ آدم، آرزو سے ہی لالہ خیز بن جاتی ہے۔ ایسی مٹی جس میں گل لالہ اُگتے اور نشونما پاتے ہیں جس انسان نے آرزوؤں اور تمناؤں کے بیج اپنے دل کی کھیتی میں نہ بوئے وہ پتھروں اور اینٹوں کی طرح دوسروں کی پامالی کا شکار اور نشانہ بنتا ہے۔ نیک تمنائیں، بلند ارادے اور مقصد زندگی کے حوالے سے خوش آئند آرزوئیں، ہر بادشاہ اور سردار کا سرمایہ حیات ہیں۔ آرزو ہر فقیر کیلئے جامِ جہاں بین کی حیثیت رکھتی ہے انسان جو آب و گل کا مجسمہ ہے اسکو آرزو ہی انسان بنا دیتی ہے۔ آرزو ہم کو اپنی پہچان اور شناخت بتا دیتی ہے آرزو آگ کی چنگاری کی طرح ہمارے جسم سے بلند ہوتی ہے اور ایک خاک کے ذرے کو آسمان وسعت اور پنہائی سے ہمکنار کر دیتی ہے۔ آذر کی اولاد نے کعبہ تعمیر کیا ایک نگاہ خدا شناس و خدابین نے خاک کو اکیسر بنا دیا تم بھی اپنے بدن میں خودی پیدا کرو اوراپنی مشت خاک کو اکیسر بناؤ۔
 
کابل میں شاہِ افغان اور اقبال:
افغانستان کے سفر کے دوران میں اقبال کابل کے شہر میں وارد ہوتے ہیں اور بادشاہِ وقت کے دربار میں ملاقات کیلئے آتے ہیں۔ اپنے کام میں سب سے پہلے وہ کابل شہر کی تعریف کرتے ہیں اس پورے خطے میں کابل جنت کی مانند ہے اسکے انگوروں سے آبِ حیات جیسا رس حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مرزا صائب جو ایران کے مشہور و معروف شاعر تھے انکے بارے میں تاریخ بتا رہی ہے کہ غنی کشمیری کے کلام میں کرالہ پن کے معنی دریافت کرنے کیلئے وہ ایران سے کشمیر آئے تاکہ غنی کشمیری سے اس کشمیری لفظ کے معنی دریافت کریں۔ اقبال کابل کے بارے میں صائب کے شعر کا حوالہ دیتے ہیں جس میں صائب نے کہا ہے
ع
خوشا وقتے کہ چشمم از سوادش سرمہ چیں گردد‘‘
کابل کی دید اور زیارت کا وقت میرے لئے کتنا خوش گوار اور مسرت آگین تھا کہ میری آنکھیں سرمہ چیں ہو گئیں۔ یعنی ان کی بینائی اور بصارت میں اسی طرح تازگی اور افزودگی پیدا ہو ئی جیسے سرمہ لگانے سے ہو جاتی ہے۔
اقبال اس سرزمین کیلئے دعا مانگتے ہیں کہ یہ سرزمین روشن اور پائندہ رہے۔ رات کی تاریکیوں میں اسکے سمن زار دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ سہانی صبح اسکی بساطِ سبزہ میں غلطاں و پیچاں رہتی ہے۔ یہ پاک وطن، خوشیوں اور مسرتوں کا مسکن، اسکی ہوائیں شام اور روم کی ہواؤں سے بہتر ہیں یہاں کا پانی چمک دار اور یہاں کی مٹی درخشندہ اور تابندہ ہے۔ اس کی ہواؤں کی لہروں سے مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے۔ اس سرزمین کے راز اور اسرار کا احاطہ نہ حروف میں اورنہ کلام میں کیا جا سکتا ہے۔

مختصر یہ کہ اسکے کہساروں میں کئی آفتاب آرام فرما ہیں۔ کابل شہر کے بسنے والے آسودہ خاطر اور دل لبھانے والے موتی ہیں مگر یہ لوگ اپنے کمالات، جوہر، خوبیوں اور ایمان و یقین کی طاقت سے اسی طرح بے خبر ہیں جس طرح تلوار اپنی طاقت اور قوت سے بے خبر ہوتی ہے۔ قصرسلطانی کا نام بہت ہی د کُشا اور دل رُبا ہے زائرین کیلئے اسکی راہ کی گرد کیمیا کے برابرہے۔ اس بلند و بالا محل میں ، میں نے شاہِ افغان کو دیکھا اس طرح جیسے بادشاہ کے سامنے دردمند دل رکھنے والا کوئی فقیر ہو۔ اسکے خلق نے دلوں کی سلطنتوں کے دروازے کھول دیئے یہاں روایتی طور طریقوں والے بادشاہوں کے درباریوں کے سے رسم و رواج دیکھنے اور ہٹو بچو کی آوازیں سننے میں نہیں آئیں۔

میں انکے دربار میں ایسے ہی تھا کہ حضرت عمر فاروقؓ کے دربار میں کوئی عام انسان اور بے نوا فرد ہو ان کے کلام سے میری روح میں وزوگداز پیدا ہو گیا۔ میں نے محبت سے سرشار ہو کر ان کے ہاتھ کو بوسہ دیا۔ میں نے اس بادشاہ کودیکھا وہ بڑا ہی خوش کلام اور سادہ لباس زیب تن کئے تھا۔ اپنے فرائض کی انجام دہی میں سخت کوش، نرم گفتار اور نرم مزاج اور گرم جوش تھا۔ اس کی نظروں ہی سے صدق و اخلاق ٹپک رہا تھا اس کے وجود سے، اسکی سلطنت میں دین اور حکومت دونوں استوار اور محکم دکھائی دیتے تھے۔
 
وہ بشر ہی تھے مگر فرشتوں سے بھی پاکیزہ تر اخلاق کے حامل تھے۔ طرزِ گفتگو اور نرم مزاجی میں یہ فقروشاہی دونوں مقامات کی اصل اور حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے۔ مشرق اور مغرب کے حالات اسکی نگاہوں میں روشن تھے، یعنی وہ حالات زمانہ اور گردوپیش کی دنیا سے بے خبر اور لاتعلق نہیں تھا۔ اس کی حکمت اورشاہانہ تدبر، مشرق و مغرب کے مسائل اور حالات سے پوری طرح باخبر اور باعلم تھے۔ مدبر اور دانا لوگوں کی طرح یہ بادشاہ شہر یار، نکتہ رس اور نکتہ دان تھا اور قوموں اور امتوں کے حال سے واقف تھا۔ اپنی گفتگو میں اس نے معانی کے دروازے کھول دیئے حکومت اور دین کے رموز و نکات واشگاف کئے اس نے مجھ سے کہا کہ دین اور ملت کیلئے جو درد، چبھن اور جذبہ میں نے آپکے اندر دیکھا اور محسوس کیا ہے اس کی بدولت میں آپکو اپنے قریب اور عزیز ترین افراد میں شمار کرتا ہوں ہر اس شخص کو جس میں محبت، نرمی، حسن اخلاق کی بوباس ہو، میری نگاہوں میں اسے ہاشم اور محمود غزنوی کا مقام حاصل کیا۔
 
اس اخلاق کریمانہ کے مالک، شاہ افغان کی خدمت میں، میں نے قرآن پاک کا نسخہ ہدیتاً پیش کیا۔ نسخہ کیمیا پیش کرتے ہوئے میں نے اس سے کہا کہ : اہل حق کا یہی سرمایہ ہے۔ اسکی تعلیمات میں دینی اور اخروی زندگی کی جاودانی اور ابدیت پائی جاتی ہے یعنی اسکی تعلیمات پر عمل کرنے والوں کی دنیا بھی بہتر ہوتی ہے اور آخرت کی ابدی زندگی بھی فلاح اور کامرانی سے ہمکنار ہوتی ہے۔
 
اس کتاب زندگی میں ہر ابتدا کی انتہا ہے یعنی یہ زندگی کے ہر راز سے آگاہ کرتی ہے۔ یہ ہر مسئلے کا کامیاب حل تلاش کرتی ہے۔ اسکی طاقت اور قوت کے بل بوتے پر حضرت علیؓ حیدر کرار نے خیبر کشا کردار انجام دیا۔ میری ان معروضات کا نشہ ا نکی رگوں میں اور خون میں گردش کرنے لگا۔ اس کا اظہار اس طرح ہوا کہ اس کی دونوں آنکھوں سے قطرہ قطرہ آنسو ٹپکنے لگے یہ اسکے دل مومن کی اندرونی کیفیت کا دیدنی اظہار تھا۔ نادر شاہ نے کہا کابل فتح کرنے سے پہلے جب میں اپنے وطن سے دور یورپ میں زندگی بسر کر رہا تھا تو بہت پریشان تھا۔ دین اور وطن کے غم میں گھلا جا رہا تھا۔ میرے اپنے وطن اور ملک کے کوہ و دشت میرے قلبی اضطراب اور بے چینی سے ناواقف تھے۔ میرے بے حساب غم و فکر سے بالکل بے خبر تھے۔ ہزار داستان کی طرح میں نے نالہ زاری کی، موسم بہار میں جوبن پر آئی ہوئی آبجو کے ساتھ میں نے اپنے اشک اور آنسو بہا دیئے۔ اس وقت قرآن کے بغیر میرا کوئی غمگسارنہ تھا اس کتاب کی قوت اور رہنمائی نے میری ہر مشکل آسان بنا دی…؎
غیرِ قرآں غم گسارے من نہ بودقوتش ہر باب را برمن کشود
اس عالی مرتبت خسرو افغانستان کے حکیمانہ اور درد مندانہ کلام سے دوبارہ میرے قلب و ذہن میں جذبات امنڈ آئے۔ اسی گفتگو کے دوران نماز عصر کی اذان کی آواز بلند ہوئی وہ اذان جو مومن کو دنیا مافیہا سے بے خبر بنا دیتی ہے اور وہ دیوانہ وار اذان کی آواز پر سجدہ ریز ہونے کیلئے بے تاب ہوجاتا ہے۔ انتہائی اورناقابل بیان عاشقانہ سوزوگداز کے ساتھ میں نے ان کی امامت اور اقتدار میں نماز ادا کی…ع
راز ہائے آں قیام و آں سجود 

No comments:

Post a Comment