November 11, 2013

امن کا نوبل انعام



ملالہ اور عبیرقاسم حمزہ الجنابی


جب تک ملالہ نوبل انعام کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی، اس ملک کے میڈیا میں ایک شور برپا تھا” ہمارا سر فخر سے بلند ہے، ایک بچی جس کی جدوجہد علم کیلئے تھی، جو خواتین کے حقوق کی پاسداری کیلئے نکلی تھی اور آج پوری دنیا میں ہمارے ملک کا نام روشن کررہی ہے۔ پوری دنیا اس کی جرات کو سلام کررہی ہے، اس کے مشن کو جاری رکھنے اور تعلیم کو عام کرنے کیلئے سرمایہ دے رہی ہے۔ اس ملک کےعظیم اورباشعور دانشوروں کے یہ نعرے میرے کانوں میں گونجتے تھے اور میں سوچتا تھا کہ وہ امن کا نوبل انعام، جسے یہ قوم عزت کا تاج سمجھ رہی ہے، کیسے کیسے ظالموں، قاتلوں اور انسانیت کے دشمنوں کے سر سجتا رہا ہے۔

ملالہ کا سب سے بڑا وکیل گورڈن برائون وہی ہے جس نے عراق پر حملہ کرنے کیلئے نہ صرف برطانوی پارلیمنٹ میں ووٹ دیا بلکہ دھواں دار تقریر بھی کی تھی ۔ عراق پر وہ جنگ مسلط کی گئی جس نے لاکھوں لوگوں سے صرف تعلیم کا نہیں بلکہ زندگی کا حق بھی چھین لیا۔عورتوں کے حقوق کے یہ عالمی چمپین وہ ہیں جن کے ہاتھ مظلوم عورتوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور سروں میں عورتوں کی عزت سے کھیلنے کی ہوس رچی ہوئی ہے۔

12 مارچ 2006 کو ملالہ کی ہم عمر عمر چودہ سالہ عبیر قاسم حمزہ جو عراق کے چھوٹے سے قصبے المحمدیہ میں رہتی تھی، اس پر کیا بیتی؟ دل تھام کر پڑھیے: عبیر کا والد قاسم حمزہ رحیم اور ماں فخریہ طہٰ محسن اپنی اس بیٹی عبیر،سالہ بیٹی حدیل،سالہ احمد اور 11 سالہ محمد کے ساتھ اپنے گھر میں خوش و خرم رہ رہے تھے۔ عبیر کو اس کے والدین بہت کم گھر سے باہر جانے دیتے کہ سامنے گورڈن براؤن کے جمہوری ووٹ سے شروع ہونے والی عراق جنگ کے سپاہیوں کی چیک پوسٹ تھی جس پر چھ سپاہی پاول کورٹر، جیمز بارکر، جیسی سپل مین، برائن ہاورڈ، سٹیون گرین اور انتھونی پرایب موجود تھے۔ جب کبھی یہ بچی باہر نکلتی تو وہ اسے چھیڑتے اور وہ گھبرا کر اندر بھاگ جاتی۔ ایک دن یہ ان کے گھر گھسے، تلاشی لی اور عبیر کے گال پر سٹیون گرین نے انگلی پھیری جس نے سارے گھر کو خوفزدہ کر دیا۔ جب کبھی وہ اپنے والدین کے ساتھ باہر نکلتی، وہ اس کی طرف دیکھ کر غلیظ اشارہ کرتے ہوئے ویری گڈ کہتے۔ 12 مارچ 2006 کی صبح وہ شراب پینے میں مشغول تھے کہ عبیر کے دونوں بھائی سکول کے لیے روانہ ہوئے۔ عبیر کو اس لیے سکول سے اٹھا لیا گیا تھا کہ والدین ان سپاہیوں سے خوفزدہ تھے۔ تھوڑی دیر بعد وہ مکان میں داخل ہوئے۔ انہوں نے ماں باپ اور چھوٹی بہن کو ایک کمرے میں بند کیا اور عبیر کو دوسرے کمرے میں۔ سٹیون گرین نے اس کے ماں باپ اور چھوٹی بہن کو ایک کمرے میں لے جا کر قتل کر دیا اور دوسرے کمرے میں باقی دو سپاہی اس چودہ سالہ بچی سے زیادتی کرتے رہے۔ اس کے بعد گرین کی آواز آئی، میں نے انہیں قتل کر دیا اور پھر وہ بھی عبیر پر پل پڑا۔ اس کے بعد ان سپاہیوں نے اس کے سر پر گولی مار کار قتل کر دیا۔ جاتے ہوئے ایک سپاہی نے اس کے زیر جامے کو لائٹر سے آگ دکھائی اور کمرے میں پھینک دیا۔ گھر سے دھواں نکلا تو پڑوسی دوڑے ہوئے آئے اور انہوں نے جس حالت میں اس مظلوم چودہ سالہ بچی کو دیکھا وہ ناقابل بیان ہے۔ میں نے جب یہ واقعہ پڑھا اور چودہ سالہ عبیر قاسم حمزہ الجنابی کی تصویر دیکھی تو کئی راتیں بے چینی اور اضطراب سے سو نہ سکا تھا۔

نوبل پرائز دینے والوں اور ملالہ یوسف زئی کی وکالت کرنے والوں کے ہاتھ عبیر جیسی بے شمار معصوم لڑکیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں جو ان کے خوف سے گھروں سے نہیں نکلتی تھیں۔ جنہوں نے ان کی بدمعاش اور غلیظ نظروں کے خوف سے اسکول جانا چھوڑ دیا تھا۔ عبیر تو ان کے خلاف کوئی ڈائری بھی تحریر نہیں کر رہی تھی جو دنیا کا کوئی بڑا چینل نشر کرتا۔ اس نے تو انھیں ظالم، تعلیم کے دشمن اور انسانیت کے قاتل بھی نہیں کہا تھا۔ اس کا والد کسی این جی او کا سربراہ یا کارپرداز نہیں تھا کہ اپنی بیٹی تو ان سپاہیوں کے خلاف اکساتا، اس کی ایک فرضی نام سے ڈائری لکھنے میں مدد کرتا اور پھر دنیا بھر میں داد سمیٹتا۔ عبیر کو اس ظلم کی وجہ سے سہم سی گئی تھی۔ اس کے زندہ بچ جانے والے بھائیوں نے بتایا کہ جس دن سٹیون گرین نے اس کے گال پر انگلی پھیری، ہمارے والد نے اسی دن اسے اسکول سے اٹھا لیا تھا۔ وہ اس دن بہت روئی۔ اسے گھر کے باہر لگی ہوئی سبزیوں کو پانی دینے، دیکھ بھال کرنے کا بہت شوق تھا، لیکن اس دن کے بعد سے وہ بس کھڑکی سے انھیں دیکھتی رہتی۔

اس عالمی یا مقامی میڈیا میں کوئی ایسا شخص ہے جس کے سینے میں دل ہو، جس کے دل میں بیٹی کی محبت جاگتی ہو، جس کی آنکھ سے ظلم پر آنسو نکل آتے ہوں؟ وہ اٹھے اور کہے، آؤ ہم مل کر ایک اور امن انعام کا آغاز کرتے ہیں، ان بچوں کے لیے جوصابرہ و شطیلہ میں مارے گئے، ان مظلوموں کے لیے جو ٹینکوں تلے کچل دیے گئے، ان قیدیوں کے لیے جن پر کتے چھوڑے گئے، ان بہنوں کے لیے جو ان درندوں کے ہاتھوں اس وقت تک درندگی کا شکار ہوتی رہیں جب تک ان کا سانس باقی تھا، عبیر کے لیے جس سے اس کا اسکول چھوٹ گیا، جس کے لیے گھر سے نکلنا عذاب ہو گیا۔

لیکن ہم بے حس ہیں۔ نوبل انعام کی چکا چوند نے ہماری غیرت کے بچے کچے گھروندے کو بھی ملیامیٹ کر دیا ہے۔ اٹھارہ کروڑ کی قوم نے ایک مغربی چینل کے پروگرام میں اپنی اس ہونہار بیتی کا یہ فقرہ کیسے سن لیا کہ ہم عورتیں وہاں قیدیوں کی طرح ہیں، ہم مارکیٹ نہیں جا سکتیں۔ کراچی سے پشاور اور گوادر سے گلگت تک کیا پاکستان یہ ہے جس کی تصویر ملالہ نے اس پروگرام میں پیش کی؟ اس نے کہا، ایسے لگتا تھا ہم جیل میں ہیں۔ میں نے بلوچستان کے دور دراز گائوں سے لے کر لاہور، کراچی، پشاور اور چھوٹے چھوٹے قصبوں تک عورتوں کو ہر موڑ اور ہر مقام پر دیکھا ہے۔ کھیتوں اور کھلیانوں میں، دفتروں اور فیکٹریوں میں، بازاروں اور ہوٹلوں میں۔ کیا یہ ہے ملالہ کا قیدخانہ؟ کیا یہ کالک ہے جو وہ اس قوم کے منہ پر مل کر نوبل انعام کی سیڑھی پر چڑھنا چاہتی ہے؟ اس قوم کا ہردانشور،مفکر  اور اینکر پرسن عوام کو خوشخبری سناتا ہے، اسے پاکستان کا وقار بلند ہونے کی نوید قرار دیتا ہے۔ ملالہ نوبل امن انعام حاصل کرنے والوں کی صف میں ہی ٹھیک تھی جس میں اسرائیل کے تین قاتل وزرائے اعظم بیگن، اسحق رابین اور شمعون پیرس بھی کھڑے ہیں۔ نوبل انعام لیتے ہوئے ان کے ہاتھ ہزاروں معصوم فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے۔ اس فہرست میں ڈرون حملوں سے معصوموں کی جانیں لینے والا بارک اوباما اور مسلم امہ کا سب سے بڑا دشمن ہنری کسنجر بھی کھڑا ہے۔ یہ غیرت کے سودے ہوتے ہیں جو غیرتمند قوموں کے غیرت مند افراد کیا کرتے ہیں کہ ایسے امن انعامات پر لعنت بھیج دیتے ہیں۔ ویتنام کا لیڈر لوڈو تھو (LU DUE THO) امریکہ سے امن مزاکرات کر رہا تھا۔ جب اسے ہنری کسنجر کے ساتھ امن کا انعام دیا تھا تو اس نے انکار کر دیا۔ ژاں پال سارتر کو ادب کا نوبل انعام دیا گیا تو اس نے بھی یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مجھے اپنے نام کے ساتھ نوبل انعام یافتہ لکھ کر اپنے ساتھ گھٹیا مذاق نہیں کرنا۔

پاکستان کی ایک مسلمان بیٹی کو مغرب کے قاتل حکمران ہمارے منہ پر کالک ملنے کیلئے استعمال کرتے رہے، اس کے سر پر ایسے ہاتھ امن کا تاج پہنانا چاہتے ہیں جن کے ہاتھ عبیر قاسم جیسی کئی مسلمان بچیوں سے رنگے ہوئے ہیں، یہ بچیاں جنہیں ان ظالموں کے خوف سے گھروں میں قید ہونا پڑا، ان کا اسکول چھوٹ گیا، وہ گھروں میں قید ہوگئیں لیکن پھر بھی وہ ان کی ہوس سے اپنی عفت بچا سکیں نہ زندگی۔

اوریا مقبول ج

No comments:

Post a Comment