June 7, 2014

سچ بولنے کی سزا، بھارت سے بھاگنا پڑا

سنل ایڈاماركو
دو برس گزر گئے ہیں سنل ایڈاماركو غصے اور صدمے کے جذبات لیے تنہائی کی زندگی جی رہے ہیں اور ایک غیر ملکی زمین پر خود کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں
ڈھونگی باباؤں کی جادوگری اور مذہبی ملاّؤں کی نام نہاد کرامات و معجزات کے سچ کو اجاگر کرنے والی معروف شخصیت سنل ایڈاماركو پر مذہب کی توہین کرنے کے الزامات عائد کیے گئے جس کے سبب انھیں بھارت سے فرار ہونا پڑا۔
فی الحال وہ فن لینڈ میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور انھیں خدشہ ہے کہ بھارت جانے پر ان کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
سنل ایڈامارکو نے باباؤں اور ڈھونگی گروؤں کے نام نہاد ’معجزات یا کرامات‘ کے دعووں کی پول کئی بار لوگوں کے سامنے کھولا۔
ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر ہونے والے ایک پروگرام کے دوران جب ایک ہندو جادوگر نے دعویٰ کیا کہ وہ اپنے تانترک علم سے کسی کی بھی جان لے سکتے ہیں تو سنل نے ان کے چیلنج کو وہیں سٹوڈیو میں قبول کیا۔
دونوں اس وقت ٹی وی چینل ایک ہی پروگرام میں مہمان کے طور پر شریک تھے۔
چینل نے سارے پروگرام منسوخ کر دیے اور جادوگر نے اپنے خاص علم کے بول جپنا شروع کیے لیکن کافی دیر کے بعد بھی کچھ نہیں ہوا اور اس درمیان سنل وہاں پرسکون کرسی پر بیٹھے رہے، چہرے پر دور دور تک موت کے خوف کا احساس تک نہیں تھا۔
بھارت میں توہم پرستی کے خلاف کام کرنے والے ادارہ ’ترک شاشتر ایسوسی ایشن‘ کے صدر کے طور پر کام کرنے والے سنل ایڈاماركو اس گروپ کا حصہ رہے ہیں جو ملک بھر میں گھوم پھر کر کالے جادو اور توہم پرستی کی حقیقت کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
بر صغیر میں جھوٹے اور جعل ساز باباؤں کی کمی نہیں ہے جو عوام کو ٹھگتے پھرتے ہیں۔ عقلی اور علمی دلائل کی بنیاد پر ایسے دھوکے بازوں کا پردہ فاش کرنے کی اس مہم میں ظاہر ہے ان کے مخالفین کی بھی کمی نہیں تھی۔
1990 کے عشرے میں وہ گاؤں گاؤں میں گھوم کر چٹکی سے راکھ نکالنے اور ہوا سے سونے کے زیور ظاہر کرنے والے جیسے ان باباؤں کی بہت سی جھوٹی شعبدہ بازیوں کا بھانڈا پھوڑتے رہے جنھوں نے کافی شہرت حاصل کر لی تھی۔
سنل کا خیال ہے کہ بھارت میں ٹی وی آنے کے بعد سے اس طرح کی توہمات اور جھوٹی كراماتوں کو پھیلانے کا کام اور آسان ہو گیا ہے لیکن سنل نے بھی اپنے علمی دلائل پیش کرنے کے لیے ٹی وی کا استعمال کیا۔
وہ کہتے ہیں: ’ٹی وی پر آنے سے پہلے میں گاؤں گاؤں گھوم کر اپنی باتوں کو لوگوں تک پہنچانے کا کام کرتا تھا۔ لیکن کچھ لوگوں کو میرا ٹی وی کے ذریعے لاکھوں لوگوں تک پہنچنا بالکل پسند نہیں۔‘

چرچ کی توہین؟

"کیتھولک عقیدہ رکھنے والے بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ سنل نے چرچ پر الزام لگایا ہے کہ وہ اس واقعے کو پیسے بٹورنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔"
سنہ 2012 میں ممبئی کے مضافات میں ایک معجزہ ہونے کی خبر آئي کہ عیسیٰ علیہ السلام کے مجسمے کے پاؤں کے انگوٹھے سے اچانک پانی نکلنے لگا ہے۔ اس واقعے کی تشہیر کے بعد ممبئی اور مضافات کے ہزاروں کیتھولک مجسمے کے درشن کے لیے امڈ پڑے۔ بعض عقیدت مندوں نے تو وہ پانی پیا بھی۔
اسی واقعے کی تفتیش کے دوران انھیں ایک بار لگا کہ ان کی زندگی خطرے میں ہے۔ اپنے ایک انجینیئر کو ساتھ لے کر وہ اس جگہ پہنچے اور اس مورتی کے انگوٹھے سے پانی نکلنے والی جگہ کی جانچ کرنے اور پانی کے آنے کا ذریعہ کی تلاش کرنے لگے۔
جس دیوار پر وہ مجسمہ تھا اس پر ہلکی سی نمی تھی۔ نمی کی وجہ پاس کے ایک بیت الخلا سے منسلک ایک نالے کے پائپ سے نکلنے والا پانی تھا جو مجسمے رس رہا تھا۔
سنل کہتے ہیں ’یہ ایک ٹوٹے پھوٹے پائپ کا معجزہ تھا۔‘
اس معاملے کے ثبوت سنل نے ایک لائیو ٹی وی پروگرام میں کیتھولک لابی گروپ کے لوگوں کے سامنے پیش کیے۔ لیکن سٹوڈيو کے باہر بہت سارے لوگ لاٹھی ڈنڈے لیے کھڑے تھے۔ سنل کا خیال ہے کہ وہ کرائے کے غنڈے تھے۔
یہ معاملہ اس وقت اور سنگین ہوگیا جب بعض کیتھولک عقیدت مندوں کے لیے اس واقعے کی حقیقت سے زیادہ چرچ کی توہین کا معاملہ بنا دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سنل نے چرچ پر الزام لگایا ہے کہ وہ اس واقعے کو پیسے بٹورنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ ساتھ ہی سنل چرچ پر توہم پرستی پھیلانے اور یہاں تک کہ مدر ٹریسا کے سینٹ یا ولی ہونے پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔
عیسی مسیح کے مجسمے کے پاؤں
ممبئی کے مضافات میں ایک معجزے کی خبر آئي کہ عیسی مسیح کے ایک مجسمے کے پاؤں کے انگوٹھے سے اچانک پانی نکلنے لگا ہے۔ اس واقعے کی تشہیر کے بعد ممبئی اور مضافات کے ہزاروں کیتھولک مجسمے کے درشن کے لیے امڈ پڑے
اسی ہفتے ممبئی پولیس نے کیتھولک گروپوں کی طرف سے سنل کے خلاف عیسیٰ مسیح کی توہین کرنے کے تین مقدمات درج کر لیے۔ یہ مقدمات دفعہ 295 اے کے تحت درج کیے گئے۔ اس دفعہ کے تحت کسی بھی مذہب کے خلاف دانستہ طور پر غلط نیت سے کی گئی تقریروں یا بیانات کو جرم کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔ اس میں تین سال تک کی سزا اور جرمانے کی تجویز ہے۔
سنل ایڈاماركو کہتے ہیں: ’اس قانون کے تحت پولیس مجھے بغیر کسی وارنٹ گرفتاری کے حراست میں لے سکتی ہے، جیل میں ڈال سکتی ہے اور میں یہ خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا۔‘
سنل نے اپنے لیے عارضی ضمانت کی اپیل کی لیکن اسے مسترد کر دیا گيا۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں پولیس کی طرف سے دھمکی آمیز فون آ رہے تھے جس میں پولیس ان پر معافی مانگنے کے لیے دباؤ ڈال رہی تھی۔ پولیس والوں نے سنل کو دھمکی دی کہ بغیر معافی مانگے کیس واپس نہیں لیا جائے گا۔
ان تمام واقعات سے پریشان سنل یورپ میں ہونے والے ایک لیکچر میں حصہ لینے کے لیے بھارت سے چلے گئے۔ فن لینڈ وہ پہلا ملک تھا جس نے سنل کو ویزا دیا۔
دو برس قبل سنل ہیلسنکی پہنچے تھے۔ سوچا تھا کہ کچھ ہفتوں میں معاملہ ٹھنڈا ہو جانے پر وہ واپس بھارت لوٹ جائیں گے۔ دو برس گزر گئے ہیں سنل غصے اور صدمے کے جذبات لیے تنہائی کی زندگی جی رہے ہیں اور ایک غیر ملکی زمین پر خود کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں: ’مجھے بہت سے لوگوں کی یاد آتی ہے۔ سب سے زیادہ تکلیف مجھے اس بات کی ہے کہ میں ان سے مل نہیں سکتا۔‘
ان کے بھارت چھوڑنے کے بعد ان کی بیٹی نے ایک بیٹی کو جنم دیا اور ان کی والدہ بھی گزرگئیں۔
ممبئی کے كارڈينل اوسوالڈ گریسینز نے سنل اور کیتھولک گروپوں کے درمیان مصالحت کرانے کی کوشش کی۔ لیکن مصالحت کی شرط تھی سنل کا کیتھولک گروپ سے معافی مانگنا۔
سنل ایڈاماركو
سنل ایڈاماركو کے بھارت چھوڑنے کے بعد ان کی بیٹی نے ایک بیٹی کو جنم دیا اور ان کی والدہ بھی گزر گئیں
لیکن سنل نے اس سے صاف انکار کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا ان کی بولنے کی آزادی کے خلاف ہے: ’میں نہیں مانتا کہ میں نے کچھ غلط کہا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے: ’مجھے لگتا ہے کہ میرے پاس بھی اپنی بات کہنے کا حق ہے۔ میں بیٹھ کر بات کرنے اور کسی طرح کی بہتری کے لیے بھی تیار ہو لیکن میں کسی کا رعب یا دھمکی برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ نہ ہی کسی اور کے کہنے پر میں اپنے خیالات کو تبدیل کر سکتا ہوں۔‘
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت واپسی سنل کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے۔ ان کے دوست نریندر دابھولكر کے ساتھ جو ہوا اسے دیکھ سنل کا خوف اور بھی بڑھ گیا ہے۔
نریندر دابھولكر ہمیشہ توہم پرستی اور کالے جادو کے خلاف آواز بلند کرتے تھے لیکن ایک دن اچانک کچھ لوگوں نےگولی مار کر ان کو ہلاک کر دیا۔

سنل کہتے ہیں: ’دابھولكر نے مجھ سے کہا تھا کہ ممبئی آنے پر وہ اور ان کے دوست مجھے تحفظ دیں گے، میں تو ان کی اس تجویز پر غور بھی کر رہا تھا۔‘ لیکن دابھولكر سے بات چیت کے تیسرے دن انھیں قتل کر دیا گیا۔

No comments:

Post a Comment