June 7, 2014

INDIAN MINISTER SUPPORTING RAPE





وزراء اور مشیروں کی جانب سے متنازع بیانات دینا کوئی نئی بات نہیں اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان بیانات سے فرد سے زیادہ ان کی پارٹی یا حکومتوں کے لیے مسائل کھڑے ہوتے ہیں لیکن ہندوستانی ریاست مدھیا پردیش کے وزیر داخلہ نے ایک ایسا بیان دیا ہے کہ جس نے تمام حلقوں کو حیران کردیا ہے۔
مدھیا پردیش کے وزیر داخلہ بابو لال گور نے ریپ کے حوالے سے دیے گئے اپنے حالیہ بیان میں اسے معاشرتی جرم تو قرار دیا لیکن وہ اس کے ساتھ یہ بھی کہہ گئے کہ ’ریب بعض اوقات ٹھیک ہوتا ہے اور بعض اوقات غلط‘۔
یاد رہے کہ اتر پردیش میں گزشتہ دنوں 12 اور 14 سال کی دو لڑکیوں (جو آپس میں کزنز بھی تھیں) کا ریپ کردیا گیا تھا جس کے بعد انہوں نے خود کو درخت سے لٹکا کر خود کشی کر لی تھی۔
اس واقعے پر بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور اترپردیش کے وزیر اعلیٰ اکھی لیش یادو پر شدید تنقید کی گئی۔
ہندوستان کے نو منتخب وزیر اعظم نریندرا مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والی وزیر کا کہنا ہے کہ ریپ صرف اس وقت جرم تصور کیا جاتا ہے جب اس کی رپورٹ پولیس میں درج کرائی جائے۔
’یہ ایک معاشرتی جرم ہے جس کا دارامدار مرد اور عورت پر ہوتا ہے۔ بعض اوقات یہ ٹھیک ہوتا ہے، بعض اوقات غلط‘۔
انہوں نے کہا کہ جب تک شکایت درج نہ ہو ریپ کچھ نہیں ہوتا۔
گور نے ریپ پر سزائے موت کے خلاف آواز اٹھانے والے سماج وادی پارٹی کے رہنما ملایم سنگھ یادو سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
ملایم سنگھ یادو نے ریپ پر سزائے موت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ لڑکوں سے غلطی ہو جائے تو، کیا انہیں ریپ کے لیے سزا دی جائے گی؟۔
بی جے پی نے گور کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے اسے ان کا ذاتی بیان قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس بیان کا ان کی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
واضح رہے کہ ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ہر 21 منٹ بعد ایک عورت کا ریپ کیا جاتا ہے جسے قانون نافذ کرنے والوں کی ناکامی سے تعبیر کیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں نہ صرف پولیس تعاون سے انکار کر دیتی ہے بلکہ تفتیشی عمل میں مجرمانہ غفلت برتی جاتی ہے۔

No comments:

Post a Comment