سید اکبر پاکستانی شہری نہیں، بلکہ افغان تھا۔ 1944ء میں برطانوی حکومت کی ایماء پر افغانستان میں سیاسی گڑبڑ کی ناکام کوشش کے بعد اس کا خاندان صوبہ سرحد میں آباد ہوگیا تھا۔ اسے اور اس کے بھائی مزدک خان کو برطانوی حکومت سے وظیفہ ملتا تھا، جو پاکستان بننے کے بعد بھی جاری رہا۔ کیا سید اکبر حکومت پاکستان کا تنخواہ دار خفیہ کارندہ تھا؟ اس نے پنڈی کے ہوٹل میں اپنا پیشہ سی آئی ڈی پنشنر لکھوایا تھا۔ صوبہ سرحد میں ایسے خفیہ معاملات کے ضمن میں سکندر مرزا کا بہت شہرہ تھا جو قبائلی علاقوں میں پولیٹکل ایجنٹ رہنے کے علاوہ پشاور کے ڈپٹی کمشنر بھی رہے تھے اور قیام پاکستان کے بعد سیکریٹری دفاع کے طاقتور عہدے تک پہنچ چکے تھے۔
سید اکبر کا ذاتی کردار بیان کرنے کے لیے تین اصطلاحات سے مدد لی جا سکتی ہے۔ یعنی سیاسی مذہبیت، جنسی اضطراب اور ضعیف العقیدہ مذہبی جنون۔ ایسا غیر متوازن شخص کسی سازش میں بہترین آلہ کار ثابت ہو سکتا ہے۔ لیاقت علی خان قتل کے بارے میں سرکاری نقطہ نظر یہی تھا کہ یہ مذہبی دیوانے اور ذہنی مریض سید اکبر کا انفرادی اقدام تھا جس میں کسی سازش کو دخل نہیں تھا۔
روزمرہ زندگی میں سید اکبر مذہبی آدمی تھا۔ پابندی سے نماز پڑھتا اور زکٰوت ادا کرتا تھا۔ اس نے شراب اور جوئے کے خلاف ایک کتاب کی کئی جلدیں خرید کر مفت تقسیم کی تھیں۔ سید اکبر قائد اعظم سے شدید عقیدت رکھتا تھا حالانکہ وہ بھی لیاقت علی خان کی طرح پردے کے قائل نہیں تھے۔ سید اکبر ہر وقت کشمیر میں جہاد اور بھارت پر حملے کے خواب دیکھتا رہتا تھا۔ اس نے اپنے گھر میں الٹے سیدھے جنگی نقشے لٹکا رکھے تھے۔ وہ ایبٹ آباد کے مولویوں سے تقاضا کیا کرتا تھا کہ وہ عوام پر جہاد کی اہمیت واضح کریں۔ 14 اکتوبر کو ایبٹ آباد سے راولپنڈی جاتے ہوئے سید اکبر نے وہی لباس پہن رکھا تھا جو اس نے جہاد میں شریک ہونے کے لیے تیار کرایا تھا۔
اس کے مکان کی تلاشی میں روزنامہ ’تعمیر‘ اور ’نوائے وقت‘ کے متعدد تراشے ملے جن میں بیگم لیاقت علی خان کے خلاف رسوا کن اداریے تحریر تھے۔ ان دونوں اخبارات میں وزیر اعظم اور ان کی بیوی کے خلاف گھٹیا مہم چلائی جا رہی تھی جس میں سید اکبر کو گہری دلچسپی تھی۔
دوسری طرف سید اکبر کے بھائی مرزک کے مطابق سید اکبر خود پردہ ترک کر چکا تھا۔ وہ کبھی کبھی اپنی بیوی اور بیٹے کو سینما دکھانے لے جایا کرتا تھا۔اس نے 16 اپریل 1949ء کو لاہور سے دو گھڑیاں خریدیں، جن میں سے ایک اس کی داشتہ رخ عافیہ کے لیے تھی۔ اس نے اپنے لڑکے دلاور خاں کو ایبٹ آباد میں ماڈرن یورپین سکول میں تعلیم کے لیے داخل کرایا تھا۔
مرنے کے بعد سید اکبر کی جیب سے 2041 روپے برآمد ہوئے۔ 450 روپیہ ماہانہ سرکاری وظیفہ پانے والے قاتل کے گھر سے7650 روپے کے نوٹ اور ’منی لال چمن لال اینڈ کمپنی بمبئی‘ کی تیار کردہ نقلی سونے کی 38 اینٹیں ملیں۔
سید اکبر پر اسرار طور پر کچھ آدمیوں سے ملتا جلتا تھا۔ چودہ اکتوبر کو پنڈی پہنچ کر سید اکبر نے چند سوالات لکھ کر کسی سے استخارے کی درخواست کی تھی۔ قتل سے ایک روز قبل اسے تحریری جواب ملا جس میں اور باتوں کے علاوہ یہ بھی لکھا تھا کہ بہشت میں حوریں تمہاری منتظر ہیں۔ تم ہماری خوشنودی پاؤ گے۔
ایبٹ آباد میں سی آئی ڈی کے اہلکار تین سال سے سید اکبر کی نگرانی کر رہے تھے۔ چودہ اکتوبر کو سی آئی ڈی راولپنڈی کو پیغام ملا کہ سید اکبر کی ’معمولی نگرانی‘ کی جائے۔وزیر اعظم کی آمد کے موقع پر ایسے مشکوک کردار کے بارے میں ان احکامات کا واضح مطلب تھا کہ کچھ لوگ سید اکبر کی پشت پناہی کر رہے تھے۔
انکوئری کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ’استخارے کا کاغذ دیکھنے اور واقعات پرکھنے سے معلوم ہوا کہ سید اکبر دانستہ یا نادانستہ طور پر کسی ہوشیار شخص یا گروہ کا آلہ کار بن گیا تھا۔ یہ ماننا مشکل ہے کہ لیاقت علی سید اکبر کے مذہبی جنون کا شکار ہو گئے اور یہ کہ سید اکبر کو خدا نے وزیر اعظم کو قتل کرنے کی ہدایت کی تھی۔‘
سید اکبر کا ذاتی کردار بیان کرنے کے لیے تین اصطلاحات سے مدد لی جا سکتی ہے۔ یعنی سیاسی مذہبیت، جنسی اضطراب اور ضعیف العقیدہ مذہبی جنون۔ ایسا غیر متوازن شخص کسی سازش میں بہترین آلہ کار ثابت ہو سکتا ہے۔ لیاقت علی خان قتل کے بارے میں سرکاری نقطہ نظر یہی تھا کہ یہ مذہبی دیوانے اور ذہنی مریض سید اکبر کا انفرادی اقدام تھا جس میں کسی سازش کو دخل نہیں تھا۔
روزمرہ زندگی میں سید اکبر مذہبی آدمی تھا۔ پابندی سے نماز پڑھتا اور زکٰوت ادا کرتا تھا۔ اس نے شراب اور جوئے کے خلاف ایک کتاب کی کئی جلدیں خرید کر مفت تقسیم کی تھیں۔ سید اکبر قائد اعظم سے شدید عقیدت رکھتا تھا حالانکہ وہ بھی لیاقت علی خان کی طرح پردے کے قائل نہیں تھے۔ سید اکبر ہر وقت کشمیر میں جہاد اور بھارت پر حملے کے خواب دیکھتا رہتا تھا۔ اس نے اپنے گھر میں الٹے سیدھے جنگی نقشے لٹکا رکھے تھے۔ وہ ایبٹ آباد کے مولویوں سے تقاضا کیا کرتا تھا کہ وہ عوام پر جہاد کی اہمیت واضح کریں۔ 14 اکتوبر کو ایبٹ آباد سے راولپنڈی جاتے ہوئے سید اکبر نے وہی لباس پہن رکھا تھا جو اس نے جہاد میں شریک ہونے کے لیے تیار کرایا تھا۔
اس کے مکان کی تلاشی میں روزنامہ ’تعمیر‘ اور ’نوائے وقت‘ کے متعدد تراشے ملے جن میں بیگم لیاقت علی خان کے خلاف رسوا کن اداریے تحریر تھے۔ ان دونوں اخبارات میں وزیر اعظم اور ان کی بیوی کے خلاف گھٹیا مہم چلائی جا رہی تھی جس میں سید اکبر کو گہری دلچسپی تھی۔
دوسری طرف سید اکبر کے بھائی مرزک کے مطابق سید اکبر خود پردہ ترک کر چکا تھا۔ وہ کبھی کبھی اپنی بیوی اور بیٹے کو سینما دکھانے لے جایا کرتا تھا۔اس نے 16 اپریل 1949ء کو لاہور سے دو گھڑیاں خریدیں، جن میں سے ایک اس کی داشتہ رخ عافیہ کے لیے تھی۔ اس نے اپنے لڑکے دلاور خاں کو ایبٹ آباد میں ماڈرن یورپین سکول میں تعلیم کے لیے داخل کرایا تھا۔
مرنے کے بعد سید اکبر کی جیب سے 2041 روپے برآمد ہوئے۔ 450 روپیہ ماہانہ سرکاری وظیفہ پانے والے قاتل کے گھر سے7650 روپے کے نوٹ اور ’منی لال چمن لال اینڈ کمپنی بمبئی‘ کی تیار کردہ نقلی سونے کی 38 اینٹیں ملیں۔
سید اکبر پر اسرار طور پر کچھ آدمیوں سے ملتا جلتا تھا۔ چودہ اکتوبر کو پنڈی پہنچ کر سید اکبر نے چند سوالات لکھ کر کسی سے استخارے کی درخواست کی تھی۔ قتل سے ایک روز قبل اسے تحریری جواب ملا جس میں اور باتوں کے علاوہ یہ بھی لکھا تھا کہ بہشت میں حوریں تمہاری منتظر ہیں۔ تم ہماری خوشنودی پاؤ گے۔
ایبٹ آباد میں سی آئی ڈی کے اہلکار تین سال سے سید اکبر کی نگرانی کر رہے تھے۔ چودہ اکتوبر کو سی آئی ڈی راولپنڈی کو پیغام ملا کہ سید اکبر کی ’معمولی نگرانی‘ کی جائے۔وزیر اعظم کی آمد کے موقع پر ایسے مشکوک کردار کے بارے میں ان احکامات کا واضح مطلب تھا کہ کچھ لوگ سید اکبر کی پشت پناہی کر رہے تھے۔
انکوئری کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ’استخارے کا کاغذ دیکھنے اور واقعات پرکھنے سے معلوم ہوا کہ سید اکبر دانستہ یا نادانستہ طور پر کسی ہوشیار شخص یا گروہ کا آلہ کار بن گیا تھا۔ یہ ماننا مشکل ہے کہ لیاقت علی سید اکبر کے مذہبی جنون کا شکار ہو گئے اور یہ کہ سید اکبر کو خدا نے وزیر اعظم کو قتل کرنے کی ہدایت کی تھی۔‘
No comments:
Post a Comment