August 25, 2017

محمد خان جونیجو کی معزولی




محمد خان جونیجو ٭29 مئی 1988ء کی شام عجلت سے بلائی گئی ایک پریس کانفرنس میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے آئین کے آرٹیکل (2)58 بی کے تحت ملنے والے اختیارات کے تحت قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ توڑنے کا اعلان کردیا۔ اس اقدام کی وجوہات بتاتے ہوئے صدر ضیاء نے کہاکہ انتخابات کا حقیقی مقصد حاصل نہیں ہوسکا۔ میرا ضمیر مجھے ملامت کررہا تھا کیونکہ میں نے نفاذ اسلام کے عمل کو تیز کرنے کی خاطر ہی ریفرنڈم کروایا تھالیکن اس دوران اسلامی نظام کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ امن و امان کی صورت حال بد سے بدتر ہوتی گئی۔ عوام کے جان و مال محفوظ نہیں، ملکی سلامتی اور یک جہتی کو خطرہ لاحق ہوگیا، جمہوری عمل سست پڑ گیا۔ میری دلی خواہش تھی کہ ملک میں اسلامی اقدار فروغ پائیں لیکن جو قومی اسمبلی توڑی گئی ہے وہ جمہوریت اور نفاذ اسلام دونوں ہی کے بارے میں عوام کی توقعات پوری نہیں کرسکی۔ جنرل ضیاء الحق نے مزید کہاکہ عوام کو مناسب وقت پر اپنے نمائندے ازسرنو منتخب کرنے کا حق دیا جائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ نئی حکومت اسلامی نظام کے نفاذ، انصاف کے قیام اور چادر اور چاردیواری کے تقدس کے عمل کو آگے بڑھانے کے لئے کام کرے گی۔ اگلے روز 30 مئی 1988ء کو جنرل ضیاء الحق نے ٹیلی وژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنے فیصلے کی تائید میں کہاکہ ’’وزیراعظم مکمل طور پر سیاسی دبائو کا شکار ہوچکے تھے جس سے کرپشن، اقربا پروری اور بدنظمی عام ہوچکی تھی اور ملک میں امن وامان کی صورت حال مکمل طور پر بگڑ کر رہ گئی تھی۔ صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے ایک پرانے رفیق کار جنرل (ر) کے ایم عارف نے اپنی کتاب ’’ورکنگ ود ضیا‘‘ میں اس واقعہ کے حوالے سے لکھا ہے: ’’ضیا نے مرض کی تشخیص کی تھی اس کو اگر قبول کرنا مشکل تھا تو جو انتہائی اقدام انہوں نے اس مرض کے علاج کے سلسلے میں اٹھائے تھے ان کو تسلیم کرنا اور بھی مشکل تھا۔ مسٹر جونیجو مثالی وزیراعظم نہ سہی لیکن انہوں نے نہایت مشکل حالات میں عنان حکومت سنبھالی تھی۔ ایک آمر صدر کے چھاتے تلے جمہوری نظام کو چلانا کوئی آسان کام نہ تھا۔ ملک میں پائی جانے والی تمام بدنظمیوں اور قباحتوں کو وزیراعظم کی جھولی میں ڈال دینا عدل و انصاف کے تقاضوںکے منافی اور حق و صداقت کی اقدار کے خلاف تھا۔ صدر کا اقدام ایک انتقامی کارروائی تھی۔ مسٹر جونیجو نے اسے مکمل یک طرفہ قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ انہوں نے ملک کی سیاسیات میں وقار و احترام اور شائستگی کو متعارف کروایا تھا اور ان کا یہ دعویٰ بلاجواز نہ تھا‘‘۔

No comments:

Post a Comment