سلام آباد — نذیر مسیح کو 23 سال قبل طبی تجزیے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ ایڈز کا باعث بننے والے وائرس (ایچ آئی وی) سے متاثرہ ہیں۔
لیکن انھوں نے منفی سماجی رویوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس مرض کے خلاف اپنی کوشش جاری رکھنے کا عزم کیا اور آج دو دہائیاں گزرنے کے بعد وہ نہ صرف خود معمول کی زندگی گزار رہے ہیں بلکہ اس مرض سے متعلق غلط سوچ کو بدلنے میں کافی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔
اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں نذیر مسیح کا کہنا تھا کہ ایچ آئی وی پازیٹوو ہونے کے بعد انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور ایڈز کے خلاف آواز بلند کرنے اور لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کے لیے بھرپور کوششوں کا آغاز کیا۔
’’ میں کہتا ہوں خدا ایسا وقت کسی کو نہ دکھائے جو میں نے دیکھا۔۔۔حالات اب اس وقت سے بہت مختلف ہیں جب مجھ میں یہ اس مرض کی تشخیص ہوئی تھی۔۔۔ میرا مقصد تھا کہ لوگوں کو اس جانب راغب کیا جائے کہ وہ تشخیص کروائیں اور اگر وہ ایچ آئی وی پازیٹوو ہیں تو پھر اس کے علاج شروع کریں۔۔۔ گوکہ اس کا مکمل علاج تو نہیں ہے لیکن دستیاب ادویات سے اس بیماری کی تکلیف سے چھٹکارا پاتے ہوئے زندگی کو معمول کے مطابق گزار سکتے ہیں۔‘‘
نذیر مسیح نے بتایا کہ گوکہ پہلے کی نسبت لوگوں میں اس مرض سے متعلق آگاہی میں اضافہ ہوا ہے لیکن اب بھی اس ضمن میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔
’’معاشرے میں اس مرض کا آسانی سے شکار ہوجانے والے طبقات (جسم فروشی، سرنج سے نشہ کرنے والے) تک اس پیغام کو موثر انداز سے پہنچانے کی ضرورت ہے اور پھر خاص طور پر انفیکشن سے متعلق بیماریوں کے علاج کے ماہر ڈاکٹروں کی تعداد بھی ناکافی ہے۔‘‘
نذیر مسیح پاکستان میں رپورٹ ہونے والے ایچ آئی وی ایڈز سے متاثرہ اولین افراد میں سے ایک ہیں۔
ایڈز کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان کے صدر ممنون حسین نے اپنے ایک پیغام میں کہا کہ عالمی برادری کو اس موذی مرض کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیے پاکستان کی معاونت کرنی چاہیے۔
انھوں نے حکومتی کوششوں کا تذکرہ کرتے ہوئے معاشرے کے مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر زور دیا کہ وہ اس مرض کے خلاف آگاہی و شعور بیدار کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
ایڈز سے ایک جان لیوا بیماری ہے جس کا وائرس عمومی طور پر غیر فطری جنسی روابط، غیر محفوظ انتقال خون اور استعمال شدہ سرنج کے دوبارہ استعمال سے انسانی جسم میں منتقل ہوتا ہے۔ اس کے بچاؤ کے لیے ماہرین صحت احتیاط کو مقدم قرار دیتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment