شوگر قابلِ علاج ..................تحریر حکیم کرامت علی (گولڈمیڈلسٹ گورنمنٹ آف پاکستان)
شوگر موجودہ کا مرض موجودہ دور میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ہزاروں لوگ اس مرض کا شکار ہیں جو اپنی زندگی مصنوعی انسو لین کے سہارے گزار رہے ہیں ۔اور کئی اپنی زندگی کی بازی ہار کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ۔لبلبہ کی خرابی سے پیدا ہونے والی یہ موذی مرض ہزاروں انسانوں کو نگل چکی ہے ۔اس سے بچاو کی تدابیر اور اختیاط کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔شوگر لاعلاج نہیں مگر اس علاج مشکل ضرور ہے ۔ایک ماہر
طبیب اس کی علامات اسباب کو سمجھتے ہوئے علاج کو ممکن بنا سکتا ہے اس مرض کے مختلف زبانوں میں مختلف نام ہیں مختلف نام۔دولاب (فار سی ) ذ یا بیطس کے لغو ی معنی در میان سے گز ر نے یا دُ و لا ب (ر ہٹ ) کے ہیں۔ اس مر ض میں جو پا نی پیا جاتا ہے وہ تھو ڑی دیر میں پیشا ب کے راستہ نکل جا تا ہے۔ مر یض پھر بار بار پا نی پیتاہے اور وہ پیشا ب کے ذریعہ نکلتا رہتاہے۔ گو یا پا نی جسم سے ہو کر گز ر تا ہے۔ اس لیے مر ض کا نا م دو لابہ ( ر ہٹ یا پا نی کا ڈول )آیو ر و ید میں سے مد ہو میہہ کہتے ہیں اور انگر یز ی میں ( Diabetees)کہتے ہیں ۔
پر کا ر یہ۔ اس کے معنی گھو منے کے ہیں۔ جس طر ح پر کار ایک نقطہ سے چل کر گر دش کر تاہو ا پھر اسی نقطہ پر آ ٹھہر تاہے۔ اسی طرح اس مر ض میں پا نی کی کیفیت ہو تی ہے یعنی پا نی جیسے اند ر دا خل ہو ا اسی طر ح گھو متا ہو ا نکل آ گیا۔
دوارہ ۔ اس کے معنی چکر لگا نے کے ہیں۔ اس مر ض میں پا نی چکر لگاتا رہتا ہے ۔ اس لیے اسے دوارہ کہتے ہیں۔
معطشہ۔ اس کے معنی پیا س لگا نے والا ہے۔ اس مر ض میں پیا س بہت معلوم ہو تی ہے اس لیے کا نا م یہ ہے۔
زلق الکلیہ۔اس مر ض میں پا نی کو گر دے سے وہی تعلق ہے جو غذا کو معدے سے جیسے مرض معدہ میں غذا بلا تغیر و تبدل نکل جا تی ہو و یسے ہی مر ض ذ بیطس میں مشر و ب پانی اپنی اصلی حا لت پر ہی بذ ر یعہ پیشا ب نکل جا تا ہے۔
استسقا ئے انحس ۔ انحس نا م مثا نہ کا ہے۔ اس مر ض میں مثا نہ ہر وقت پیشا ب سے بھرا رہتاہے۔ اس وا سطے اس مر ض کا نا م یہ ہے۔
ذیا بیطس۔ انگر یزی میں اس مر ض کو (Diabetees) کہتے ہیں۔ جو کہ یو نا نی لغت میں ذ یا بیطس کا معر ب ہے۔ جسے یو نا نی میں ر ہٹ یا چر خی کہتے ہیں۔ پیشتر اس کے کہ مر ض ذیا بیطس پر کچھ لکھا جا ئے منا سب ہے کہ عوام کے لیے اس مر ض کی ما ہیت اور حقیقت کو ذہن نشین کرانے میں سہو لیت ہو پہلے شکر کی کیمیا وی تر کیب پر رو شنی ڈالی جا ئے۔ شکر کے کیمیا ئی اجزا ء:کاربن اور پا نی یہ شکر تین قسم کی ہو تی ہے۔ گلو کو ز (انگو ری شکر ) اس میں انگوری شکر کی نسبت دو گنا کار بن اور اتنا ہے ۔
کین شو گر :(گنے کی شکر) اس میں انگوری شکر کی نسبت دو گنا کار بن اور اتنا ہی پا نی ہو تاہے۔
نبا تا تی اور نشا ستہ دار ا غذیہ کی شکر۔
انسانی جسم میں شکر کا کر دار۔شکر حرارت پید ا کر تی ہے اور حرارت و قوت جسم کو بحال ر کھتی ہے۔ اگر شکر ضرورت سے زیا دہ بن جا تی ہے تو اس کا زیا دہ حصہ جگر اور عضلا ت میں جمع رہتا ہے۔ اگر شکر کی مقدار جسم میں زیا دہ ہو جا ئے تو یہ چر بی میں تبد یل ہو کر جسم کو مو ٹا کر دیتی ہے۔
شکر کا مر ض سے تعلق۔صحت اور تند رستی کی حا لت میں خو ن ایک سے پند رہ فیصد ی شکر مو جو د ہو تی ہے۔ اگر زیا دہ شکر کھا نے سے خو ن کے اندر شکر کی مقدار زیا رہ جا تی ہے تو زیا دہ شکر کو گر دے پیشا ب کے ذ ر یعے خا ر ج کر تے ر ہتے ہیں۔ جب شکر اپنی اصل حا لت پر آ جا تی ہے تو اس کا اخراج قد ر تی طور پر رک جا تا ہے۔
جسم انسا نی میں شکر کس طر ح بنتی ہے۔ ہم تما م نشا ستہ دار غذا جو روزانہ کھا تے ہیں وہ معد ہ اور آنتوں میں ہضم ہو کر گلو کوز میں تبد یل ہو جا تی ہے۔ یہ گلو کو ز کیمیا وی تبد یلیوں کے سا تھ جگر میں پہنچ کر شکر کبد ی یا چکر حیو ا نی میں تبد یل ہو جا تی ہے اور و ہیں جمع رہتی ہے۔
جب عضلا ت جسم کو گر می اور طا قت پیدا کرنے کی ضر ورت لا حق ہو تی ہے تو شکر حیو ا نی خو ن کے خمیر میں مل کر پھر شکر انگور ی بن جا تی ہے۔ اور تغیر ا ت کے بعد خو ن کے ذ ر یعے سے جسم کے مختلف حصو ں خصو صاَ َ عضلا ت میں پھیل کر اس کی حفا ظت و پر و ر ش کر تی ہے اور زند گی میں حرارت و قو ت پیدا کر تی ہے۔ اگر یہ جمع شدہ چکر حیوا نی خر چ نہ کی جا ئے یعنی عضلا ت یک نہ پہنچے تو یہ چر بی کی صو رت میں بد ل کر جسم کو فر بہ کر دیتی ہے۔ چو نکہ پٹھو ں کو زیا دہ کا م کر نا پڑتاہے۔ اس لیے خو ن کی نسبت پٹھو ں میں شکر زیا دہ ہو تی ہے اگر شکر طبی مقد ار سے کم ہو جا ئے تو انسان لا غر اور کمز ور ہو نا شر و ع کر تے ہیں۔ کیو نکہ قو ت اور جر ا ت بجا ئے شکر کے گو شت اور چر بی کو گلا نا شر و ع کر تے ہیں۔ عضلا ت کی ر طو بت اور لبلبہ کی ر طو بت میں ایسے اجرا مو جو د ہو تے ہیں جو شکر کو تحلیل کر دیتے ہیں اور ان دونوں ر طو بتوں کے عمل ہی سے شکر حرارت اور قوت میں تبدیل ہو جا تی ہے۔ اگر لبلبہ کی اندرونی ر طو بت نا قص پیدا ہو یا کسی وجہ سے عضلا ت تک نہ پہنچ سکے تو پھر عضلا ت میں شکر کا تجزیہ نہیں ہو تا اور شکر کا ر با نک ایسڈ اور پانی میں نہیں ہو تی بلکہ گر دوں کے را ستہ پیشاب میں خار ج ہو تی ہے۔
اسبا ب مر ض۔ رنج و غم، فکر و تر دد، غیظ و غضب، کثر ت سے شیر ینی کھا نا ، مد ر سکر اشیا ء کھا نا ، کثر ت سے د ما غی کا م کر نا ۔ جسما نی ور زش نہ کر نا ، گرم اشیا ء کا زیا دہ استعمال ، کثر ت جما ع و عیا شی، حا ر متعد ی امر ا ض مثلاَ َ ہمر ہ ، ہیضہ، محر قہ ، خنا ق ، آتشک ، ملیر یا ، دارو ئے بے ہو شی سنگھا نا ، کچلہ کا زہر، دمہ ، کا لی کھا نسی ، مر گی، کزاز ، شکتہ ، غو طہ، ان و جو ہا ت سے عا ر ضی طور پر پیشاب میں شکر آ نے لگتی ہے ۔ مستقل حا لت ذیا بیطس کی یہ ہے کہ جسم کے اندر شکر کے ہضم میں کو ئی اختلا ل رو نما ہو جا ئے یعنی شکر ٹھیک طور پر ہضم نہ ہو اور پیشا ب کے راستے خارج ہو نے لگے۔
گر دوں میں سخت گر م سو ئے مزاج پیدا ہو نا ۔ اسے ذیا بیطس حا ر کہتے ہیں۔ اس میں گر دے بر داشت سے زیا دہ پا نی جگر سے جذب کر لیتے ہیں تا کہ اپنی سو ز ش اور گر می کو بجھا ئیں۔ پھر کمز وری کے با عث اور گر دوں کے منہ کشا دہ ہو جا نے کی وجہ سے گر دے اس پا نی کو خا ر ج کر دیتے ہیں۔ ضعیف اور گر دوں کی کشا دہ گی ان کے گر م سو ئے مزاج سے پید ا ہو تے ہیں۔ جس کا کام ان کو ڈھیلا کر تا ہے۔ گر دے پا نی کو اس و جہ سے بھی خا ر ج کر دیتے ہیں کہ وہ جذب شدہ پا نی سے بھر جا تے ہیں۔ اور ان کی قوت ما سکہ اسے رو کنے پر قا در نہیں ہو تی ۔ پس قو ت وا قع اپنے کا م کے لیے حر کت کر تی ہے اور اسے د فع کر تی ہے۔ جب گر دوں میں بو جھ ہو تاہے اور تما م قو تیں عا م پر ضعیف ہو جا تی ہیں۔ تو سا ری قو تیں اس پا نی کو چھو ڑ دیتی ہیں اور یہ خو د بخو د خا ر ج ہو جا تاہے۔ اسے ذیا بیطس کلو ی یا شا فی بھی کہتے ہیں۔
بو جہ سر دی ۔ یہ سخت سر د پا نی سے یا سخت سر دی لگ جا نے سے پیدا ہو تی ہے۔ جس کی وجہ سے گر دوں کی قو ت ما سکہ پا نی کو ر و کنے سے کمز ور ہو جا تی ہے ۔ اسے ذیا بیطس بار د کہتے ہیں۔
خرا بی معو ی یا غذ ا ئی ۔غذا میں شکر ی اجز ا ء کی زیا دتی اور آ نتوں کی خرا بی سے ذ یا بیطس معو ی یا غذا ئی کہتے ہیں۔
خرا بی جگر۔جگر میں شکر حیو ا نی کا زیا دہ جمع ر ہنے سے جگر کے افعا ل میں نقص یا فتو ر پیدا ہو جا تاہے۔ اسے ذیا بیطس کہدی کہتے ہیں۔
خرا بی یا نقر ا سی ۔Pancreatic Diabetees اسے ذیا بیطس غدی و یا نقر ا سی کہتے ہیں۔ اس میں غد ہ نخا ئیہ۔ کلا ہ گر دہ سے با لا ئی گلٹیو ں اور با لخصو ص با نقرا سی کی و جہ سے یہ مر ض ہو تا ہے۔ لبلبہ کی پر انی سو ز ش یا د یگر و جو ہا ت کے با عث انسو لین جو جسم میں شکر جذ ب کرتا ہے۔ پیدا ہی نہیں ہو تا یا اس کی پیدا ئش گھٹ جا تی ہے جس کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ جسم میں شکر کا تصر ف گھٹ جا تاہے۔ اور خو ن میں شکر زیا دہ ہو جا تی ہے۔ اور گر دے اسے پیشا ب کے ذ ر یعے خا ر ج کر نے لگتے ہیں ۔
خرا بی دما غ۔ دما غ کے چو تھے بطن میں ایک مقا م ہے جسے Sugar Puncture کہتے ہیں۔ اگر اس مقا م پر سو ئی چبھو ئی جا ئے تو اس کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ پیشا ب میں شکر آ نے لگتی ہے۔ جب دما غ میں اس مقا م پر یا اس کے آ س پا س ر سو لی ہو جا تی ہے تو بھی پیشاب میں شکر آ نے لگتی ہے ۔ درا صل ہو تا ہے کہ اس مقا م پر خلل ہو نے پرجگر اسے سنبھا ل نہیں سکتا اور اسے گر دوں کی طر ف دھکیل دیتا ہے ۔ جہا ں سے گر دے اسے دوسر ے فا سد ما دوں کے ساتھ بذ ر یعہ پیشاب خا ر ج کر دیتے ہیں۔
اقسام مر ض ۔یہ مر ض دو قسم کا ہو تا ہے۔(1) ذیا بیطس مطلق یا سلسل بو ل(2) ذیا بیطس شکر ی
(1) ذیا بیطس مطلق یا سلسل بو ل Diabetees Insipidus
اس میں سفید ر نگ کا زر دی ما ئل بے بو دار اور خا لص پھیکا پیشا ب بکثرت آ تا ہے اور کبھی ذرا سی شکر آ تی ہے کبھی وہ بھی نہیں آ تی اسے ذیا بیطس سا دہ یا کا ذب بھی کہتے ہیں۔ یعنی(Polyuria)
(2) ذیا بیطس شکر ی Diabetees Mellitus
اس میں پیشا ب میں شکر نکلتی ہے ۔ اس لیے ایسے پیشا ب پر مکھیا ں اور چیو نٹیا ں جمع ہو جا تی ہیں اسے Gylcosoria بھی کہتے ہیں۔ اس مر ض کا با عث دراصل انسو لین کی کمی ہے۔ ذ یا بیطس شکر ی ہی درا صل وہ فنا ک مر ض ہے جو مشکل سے پیچھا چھو ڑ تا ہے۔
ذیا بیطس شکری کی اقسا م ۔ ذیا بیطس شکر کی دو اقسام ہیں۔ اول عار ضی، دو ئم دیر پا اس میں کچھ وقت کے لیے کم یا زیا دہ مقدار میں شکر آ تی ہے عا رضی حا لت تھو ڑی احتیا ط اور علا ج سے ر فع ہو جا تی ہے ۔ عام طو ر پر یہ زیا دہ مٹھا ئیا ں کھا نے سر پر ضر ب لگنے۔ مر گی۔ دمہ۔ کا لی کھا نسی۔ کلو ر و فا ر م سو نگھنا ۔ اس کا سبب ہو تے ہیں۔ اس عا ر ضی کیفیت کو تین حصو ں میں با نٹا جا سکتا ہے۔
(۱)نہ تو شد ید پیا س محسو س ہو نہ زیا دہ بھو ک ۔ مر یض کمز ور بھی نہیں ہو تا ۔ پیشا ب کی عا م مقدار میں زیا دہ فر ق نہیں پڑ تا ۔ مر یض کی حا لت میں جب تک مر ض ر ہے کو ئی نما یاں تبد یلی نہیں ہو تی ۔
(۲)اس میں پیشا ب نہ تو زیا دہ آ تا ہے نہ کم یعنی معمو ل کے مطا بق آتا ہے۔ اس میں شکر زیادہ نہیں �آ تی بلکہ یو ر یک ایسڈ پا یا جا تاہے۔ شکر کبھی تو دیر تک آ تی رہتی ہے کبھی وقفوں سے آ تی ہے اس زمر ہ مین عمو ماََ وہ لو گ آ تے ہیں جن کی عمر چا لیس سا ل کے قر یب یا زیا دہ ہو ۔ نہ زیا دہ دُبلے ہوں نہ مو ٹے ایسے لو گ عمو ماََ مر ض گنٹھیا کا شکا ر ہو تے ہیں۔
(۳)زیا دہ غم و فکر ، اند یشہ ، سر یا پشت پر چو ٹ لگنا ۔ اس میں چند روز شکر آ کر بند ہو جا تی ہے۔ اس میں مر یض قد رے کمز ور بھی ہو جا تاہے۔ مر یض خو د بخو د یا معمو لی علا ج و ا حتیا ط سے اور تکلیف کی و جہ ہٹ جا نے سے ٹھیک ہو جا تے ہیں۔ مثلاَ فکر و اند یشے ہٹا دینے سے مٹھا ئیاں وغیر ہ نہ کھا نے سے اور متعلقہ بیما ر ی کے ہٹ جا نے سے مر ض بھی جا تا ر ہتا ہے۔ لیکن کثر ت سے پیشا ب آ نے میں ضر ور ی نہیں کہ شکر ہی شا مل ہو تی ہے۔ یہ عا ر ضی مر ض عمو ماََ غذا میں پر ہیز ر کھنے سے ہی در ست ہو جا تا ہے۔
ذیا بیطس شکر ی کی خصو صیا ت ۔ جو ا نوں میں کم اور اد ھیڑ عمر و بڑ ھا پے میں زیا دہ ہو تا ہے۔ بچو ں کو یہ مر ض نہیں ہو تا ۔ عا م طور پر بیس پچیس سا ل کی عمر کے بعد ہو تاہے۔ عور توں کے مقا بلے میں مر دوں میں زیا دہ ہو تا ہے۔ کا لے ر نگ کے مقا بلہ میں گو ر ے رنگ وا لوں کو زیادہ ہو تا ہے۔ کبھی کبھی یہ مر ض پشت در پشت بھی چلتا ہے۔ خصو صاََ جب ما ں با پ دو نوں میں مر ض ہو ۔ شہر یو ں کو دیہا یتوں کی نسبت زیا دہ ہو تاہے۔ کیو نکہ شہر ی آ ر ام پسند اور دیہا تی محنتی ہو تے ہیں۔ دبلے آدمی کی نسبت مو ٹے آ د میوں میں ز یا دہ ہو تا ہے۔
ذیا بیطس سادہ ۔ اس مر ض میں ہلکے ر نگ کا پیشا ب بہت کثر ت سے آ تا ہے اور پیا س شد ت کی لگتی ہے۔ یہ مر ض عا م طور پر بچو ں اور جوا نوں کو ہو تاہے ۔ جن خا ندا نوں میں سل کا مر ض ہو و ہا ں زیا دہ ہو تا ہے۔ اسبا ب مر ض تقر یباََ و ہی ہیں جو کہ ذیا بیطس شکر ی کے ہو تے ہیں۔
علا ما ت مر ض ذیا بیطس۔ شر و ع شر و ع میں اس مرض کی اطلا ع بہت کم ہو تی ہے۔ طبیعت ست رہتی ہے۔ پیا س بڑھ جا تی ہے ۔ بجھا نے پر عا ر ضی طور پر فر و ہوکر پھر اسی زور کی شر و ع ہو جا تی ہے۔ لیکن اتنی سی با ت سے مر یض یہ نہیں سمجھتا کہ و ہ ایسے سخت اور مو ذی مر ض میں مبتلا ہو چلا ہے۔جسے اکثر لو گ راج روگ بھی کہتے ہیں ۔ کیو نکہ یہ لا علا ج نہیں تو مشکل العلاج ضر ور ہے۔ بہر کیف شر وع میں پیا س زیا دہ معلو م ہو تی ہے۔ کمر میں ہلکادرد ہو تاہے۔ جو کہ رانوں اور پنڈ لیوں تک پھیل جا تاہے۔ پیشا ب بھی معمو ل سے زیا دہ اور بار بار آ تا ہے۔ رات کے وقت خا ص طور پر پیشا ب کی حا جت زیا دہ ہو تی ہے۔ دن رات میں 8 سے10 سیر تک پیشا ب آ جا تاہے۔ اور اس میں بار ہ چھٹا نک تک ہو تی ہے۔ پیشا ب کی رنگت ہلکی شر بتی یا پچا لی گھا س کی طر ح ہو تی ہے اور اس میں شکر مو جو د ہو تی ہے۔ مر یض دن بد ن کمز ور ہونے لگتا ہے۔ پیشا ب کا وز ن مخصو ص Special Gravityبڑھ کر 1030 سے1065 در جہ تک ہو تا ہے۔ شکر کے علا وہ جس کی مقدار 2 فیصد ی سے 12 فیصد ی ہو تی ہے۔ پیشا ب یو ر یا اور فا سفیٹس ما دے بھی خا ر ج ہو تے ہیں ۔ جس قد ر مر ض بڑھتا جا تا ہے۔ علا ما ت شد ید ہو تی جا تی ہیں اور جب مر ض بڑ ھتا ہے تو منہ خشک ر ہتا ہے۔ پیا س بہت زیا دہ لگتی ہے۔ دانت بو سید ہ ہو جا تے ہیں۔ مو ڑھے پھو ل جا تے ہیں اور ان میں درد ہو تاہے۔ دانت ڈھیلے ہو کر گر نے لگتے ہیں۔ منہ کا مزہ میٹھا ہو تاہے۔ اور سا نس میں سے بھی ایک قسم کی میٹھی بو آ تی ہے۔ جسم سے سیب جیسی بو آ تی ہے۔ بھو ک زیا دہ لگتی ہے۔ کبھی جو ع کلبی کی شکا یت ہو جا تی ہے۔ یعنی کھا نا کھا نے کے فو راََ بعد پھر بھو ک لگتی ہے۔ اور باو جو د بسیا ر خو ر ی کے بد ن مثل مو م بتی کے �آ ہستہ آ ہستہ گھلتا جا تا ہے۔ ہا ضمہ خرا ب ہو جا تاہے۔ کھٹی ڈکار یں آ تی ہیں۔ قبض کی شکایت ر ہتی ہے۔ خون کا سیا ل حصہ زیا دہ مقد ار میں بد ن سے نکلنے کی وجہ سے جلد نا ہموار ۔ خشک اور کھر دری ہو جا تی ہے ۔ اور جلد سے بھو سی جھڑا کر تی ہے۔ چلد پر دا غ اور چھا ئیاں پڑ جا تے ہیں۔ کبھی پھو ڑے نکلنے لگتے ہیں۔ چنبل کی شکا یت ہو جا تی ہے اور درد سر یا دوران سر کی شکایت رہتی ہے۔مزاج میں چڑچڑا پن آ جا تا ہے۔ مو تیا بند ہو جا تاہے۔ یا نظر با لکل جا تی ر ہتی ہے ۔ یا نا قص ہو جا تی ہے ۔ ہا تھ پا ؤں سر دمگر ہتھیلیاں اور تلو ے گر م رہتے ہیں۔ عو ر توں میں حیض بند ہو جا تا ہے۔ مر دوں کی قوت با ہ زا ئل ہو جا تی ہے۔ مو تیا بند ہو نے کی وجہ یہ ہے کہ رطوبت جلد یہ خون سے شکر جذ ب ہو جا نے کی وجہ سے مکدر ہو جا تی ہے۔ اور شفا ف نہیں ہتی۔ بعض اوقا ت آنکھ کے پر دہ شکییہ میں ہزال پیدا ہو جا تا ہے۔ جس کے نتیجے میں بصا ر ت زا ئل ہو جا تی ہے اور مر یض اند ھا ہو جا تاہے۔
ذیا بیطس کی مخصو ص علا ما ت ۔ پیشا ب کا زیا دتی،پیشا ب میں شکرآ نا، شد ید پیا س، بھو ک زیا دہ لگتی ہے،جسم کا دبلا ہو نا۔
مد ت مر ض ۔یہ ایک مز من بیماری ہے۔ عام طور پر اس کی مد ت ایک سا ل سے تین سا ل تک ہو تی ہے۔ لیکن کئی بد قسمت مر یض چند ہفتوں میں ہی نحیف ہو جا تے ہیں۔ ایسی صور ت میں مر یض کو نہا یت حا ر سمجھا جا ئے گا۔
عوا ر ض مر ض ۔ یہ مر ض اکثر سل میں مستقل رہتاہے۔ اگر مر یض کو برانکا ئیٹس۔ پلو ر سی ۔ نمو نیہ۔ خنا ق ، چھا جن وغیرہ کی شکا یت ہو جا تی ہے۔ کا ر بنکل ۔ پھو ڑے پھنسی نکل آ تے ہیں۔ بے ہو شی طار ی ہو جا تی ہے۔
ذیا بیطس شکر ی اور بو ل شکر ی فر ق ۔بو ل شکر ی میں عا ر ضی طور پر تھو ڑی بہت شکر آ تی ہے۔ اور اکثر غذا کے پر ہیز سے مر یض صحت یا ب ہو جا تا ہے اور شکر رک جا تی ہے۔ مگر ذیا بیطس شکر ی محض غذا کے پر ہیز سے ر فع نہیں ہو تا۔ پیا س کی زیا دتی پیشا ب کا بکثر ت با ر بار آ نا اور اس میں مستقل طور پر شکر کا آنا ۔ شد ت سے بھو ک لگنا ۔ قبض رہنا اور روز بر و ز لا غر ہو نا ۔ یہ ایسی علا ما ت ہیں کہ دو نو ں میں ب�آ سا نی تشخیص ہو سکتی ہے۔ ذیا بیطس شکر ی میں پہلے پیشا ب میں شکر خا ر ج ہو تی ہے پھر پیشا ب بکثر ت آ نے لگتا ہے۔ یعنی ذیا بیطس شکر ی کے بعد کثرت بول کی شکا یت ضر ور ہو جا تی ہے لیکن صر ف کثر ت بو ل کے ساتھ شکر کا آنا ضر ور ی نہیں۔
اصو ل علا ج ۔اصلی سبب کو معلوم کر کے اس کو ر فع کر یں۔ مر یض کا تما م و قت تفر یح طبع میں خر چ کرو تا کہ مر یض کا دھیان مر ض کی طر ف نہ جا ئے ۔ اس کا مطلب کے لیے مر یض کو اس کے دل پسند مشغلہ میں لگا ؤ۔ چو نکہ اس مر میں دو ا ؤ ں سے زیادہ احتیا ط اور پر ہیز کی ضرورت ہے اس لیے غذا کی خصو صیت سے خیا ل رکھو ۔ مر یض کو کمز ور نہ ہونے دیں۔
پرہیز و غذا ئیں۔ذیا بیطس میں خون میں شکر زیادہ ہو جا تی ہے اس لیے ایسی غذائیں استعمال کر نی چا ہیے جو کہ شکر کی مقدار کو کم کر نے والی ہو ں جو غذا ئیں شکر کی مقدار کو زیادہ کر نے والی ہوں ان سے سخت پر ہیز کر نا چا ہیے۔ بعض اوقا ت صر ف یہی طر یقہ تند ر ستی اور صحت کا سبب ہو جا تاہے۔ غم و فکرو رنج، تر دداور دما غی محنت کو بھی ذیا بیطس کے اسبا ب میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتااس لیے غذا ئی پر ہیز کے سا تھ ہی یہ بھی ضر وری ہے کہ مر یض کو نہا یت صا ف ستھر ے ہوا دار مکا ن میں رکھا جا ئے۔ اور افکار و آلا م سے بچا یا جا ئے۔ خانگی الجھنوں میں مبتلا ہو نے کا مو قع نہ دیا جا ئے۔ جسم کو سر دی سے بچا نا اور پانی سے بھیگنے سے بچنا بھی ضروری ہے۔ میٹھی اشیا ء با لکل تر ک کر دینی چا ہیے۔ شکر ، کھا نڈ کھا نے سے قطعی پر ہیز کیا جا ئے۔ میٹھے میو ہ جا ت بھی نہ کھا نے چا ئیے۔
غذا ئیں ۔ نبا تا ت میں عا م طو ر پر نشا ستہ پا یا جا تا ہے۔ البتہ حیو ا نی غذائیں زیا دہ تر نشا ستہ سے خا لی ہو تی ہیں لیکن بعض حا لتوں میں تنہا حیو انی غذائیں بھی مر یض کو نہیں دی جا سکتیں۔جس وقت ذیا بیطس شکر ی خفیف اور کم شد ید ہو اس وقت نبا تا ت کو تر ک کر نے اور حیو ا نی غذاؤں سے کھا نے سے فا ئدہ ہو تا ہے۔ لیکن شد ت مر ض کے و قت حیو ا نی اغذیہ مثلاََگو شت کے استعما ل سے نقصا ن پہنچتا ہے۔ کیو نکہ اس سے پیشا ب میں شکر کا آنا بند نہیں ہو تا بلکہ شکر زیا دہ آنے لگتاہے۔ اس کے علا وہ نشا ستہ دار غذا ؤ ں کو تر ک کر دینے سے بد ن کے عضلا ت لا غر ہو جا تے ہیں۔اور اس کا اثر مریض پر اچھا نہیں بڑتا ۔ بہر کیف ذیا بیطس میں صر ف گو شت کھا نے ہی سے مر یض کو صحت نہیں ہو سکتی بلکہ بعض اوقات یہ صو ر ت مضر ہو تی ہے۔ نبا تی اغذیہ جن کا نشا ستہ کم کر دیاگیا ہو وہ کھا ئی جا سکتی ہیں۔ کیونکہ نشا ستہ اس بیما ری والے کو مضر ہے جب وہ اغذ یہ سے خا ر ج ہو جا ئے گا تو مضر ت بھی ر فع ہو جا ئے گی۔ چنا نچہ ذ یا بیطس کے مر یضو کو گیہوں کی بھو سی کی رو ٹی پکا کر کھلا ئی جا تی ہے۔ تر کاریوں میں ککڑی۔ ٹینڈے، کرم کلہ، پالک ، خرفہ، بتھو ا کا سا گ۔ سر سو ں کا سا گ ۔میتھی کا سا گ۔ سو یا، دھنیا ،پیا ز ،نا شپا تی، آ لو چہ، جامن، آ ڑو، لو کاٹ بہت ہی مفید ہیں۔
No comments:
Post a Comment