January 14, 2014

چوھدری اسلم دس کڑوڑ کےبنگلے کا مالک اربوں روپے کی ناجائز اثاثہ اور اس قسم کا شخص جو بدنام زمانہ دھشت گردی کے نام پر پيسہ بناتہ رھا آج ھمارا ھيرو ھيشہ کی طرع طالبان نے زمۃداری قبول کر لی









سندھ پولیس کے متنازع ترین افسر چودھری اسلم جمعرات کو کراچی میں ایک بم دھماکے میں دیگر تین پولیس اہلکاروں کے ہمراہ جاں بحق کیا ہوئے، لگتا ہے کہ پاکستانی میڈیا میں بھونچال آگیا ہے۔ کیا دائیں بازو کے رہنما اور کیا بائیں بازو کے لیڈر، کیا لسانی جماعتیں اور کیا نام نہاد سول سوسائٹی کے رہنما، کیا عمائدینِ سلطنت اور کیا سالارانِ فوج… کون ہے جو چودھری اسلم کی شان میں رطب اللسان نہیں ہے؟ آخر چودھری اسلم میں ایسی کیا گیدڑ سنگھی تھی کہ سارے ہی اُن کے لیے دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں اور شہادت کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز کیے دے رہے ہیں! اس پر گفتگو آخر میں۔ پہلے تو یہ دیکھتے ہیں کہ یہ چودھری اسلم جاں بحق کس طرح ہوئے۔
وقوعہ کے بارے میں میڈیا پر مسلسل کنفیوژن ہے۔ دھماکے کے بعد پہلے ہی لمحے، پولیس افسران نے حسبِ عادت اسے خودکش بمبار کا کارنامہ قرار دیا۔ مگر جب چودھری اسلم کی تباہ شدہ گاڑی کو دیکھا گیا تو مجبوراً انہیں یہ کہنا پڑا کہ خودکش بمبار گاڑی کو اس بُری طرح سے تباہ کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔ پھر کہا گیا کہ یہ پلانٹ کیا ہوا بم تھا۔ یہ بم سڑک کے کنارے ایک نیلے رنگ کے ڈرم میں رکھا گیا تھا جو ریموٹ کنٹرول سے اڑا دیا گیا۔ اب ذرا واقعے کا دوبارہ سے جائزہ لیجیے اور ان بیانات کو دیکھیے۔ ہلاکتیں صرف اور صرف اُس گاڑی میں ہوئیں جس میں چودھری اسلم سوار تھے۔ اس گاڑی کا ایک بھی مسافر زندہ نہیں بچا۔گاڑی بھی صرف وہ متاثر ہوئی جس میں چودھری اسلم سوار تھے۔ اس کے علاوہ دیگر پولیس گاڑیاں دھماکے کے بعد ایک دوسرے سے ٹکرانے کی بناء پر متاثر ہوئیں اور اسی بناء پر ان میں سوار پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے۔ چودھری اسلم کی گاڑی کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ اس کے پرزے پرزے الگ ہوگئے۔ اگر کوئی خودکش بمبار اس گاڑی کو تباہ کرتا تو یہ صرف ایک سمت سے تباہ ہوتی، اس طرح اس کے پرخچے نہ اڑتے۔ اسی طرح اگر یہ روڈ سائیڈ پلانٹ کیا گیا بم تھا تو بھی گاڑی ایک سائیڈ سے تباہ ہوتی، پوری گاڑی نہیں۔ اور اس کے علاوہ دیگر پولیس گاڑیاں بھی اس کی لپیٹ میں آتیں۔ دوسری اور سب سے اہم بات یہ کہ بم پھٹنے کی جگہ پر گہرا گڑھا ہوتا۔ مگر ایسا تو کہیں پر بھی نہیں ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق، دھماکے کے بعد تباہ ہونے والی گاڑی کئی فٹ اونچی اچھلی ہے اور اس کے حصے ایک بڑے رقبے پر پھیلے ہوئے تھے۔ اس کا آسان سا مطلب یہ ہوا کہ بم گاڑی کے اندر ہی فٹ تھا۔ بم پھاڑنے والے کو اس کا علم تھا کہ کس جگہ پر سی سی ٹی وی کی کوریج ہے اور کہاں پر نہیں۔ چونکہ یہ گاڑی پولیس گارڈز کی حفاظت میں ہی ہوتی تھی تو اس سے نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ اس کھیل کے کُھرے کہیں گھر کے اندر ہی جاتے ہیں۔
یہ اتنی آسان سی بات ہے تو پھر یہ سارے تجربہ کار اور تربیت یافتہ پولیس افسران آخر اتنا کنفیوژن کیوں پھیلارہے ہیں؟کیا یہ سارے لوگ نادان ہیں یا پھر یہ کوئی اور کھیل کھیل رہے ہیں؟ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہمیں آج تک پتا نہیں چل سکا کہ مرتضیٰ بھٹو کو مارنے کے احکامات جاری کرنے والا اعلیٰ ترین بندہ تھا کون؟ اور بے نظیر بھٹو کے مرنے کی وجہ کیا تھی؟ کیا واقعی وہ گولی سے مری تھیں یا کسی اور وجہ سے؟
کہا گیا کہ چودھری اسلم کو اس لیے مارا گیا کہ وہ طالبان کے خلاف تھے۔ مگر طالبان کے خلاف تو چودھری اسلم کی کوئی بڑی کارروائی آج تک سامنے نہیں آئی۔ انہوں نے نچلے درجے کے کئی کارکنان کو پکڑا بھی، جعلی پولیس مقابلوں میں مارا بھی اور بھاری رشوت کے عوض چھوڑا بھی، مگر طالبان کو انہوں نے کبھی بھی اتنا بڑا نقصان نہیں پہنچایا جتنا پرویزمشرف کے شروع کے دور میں دیگر پولیس افسران نے… جنہوں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی سمیت سیکڑوں افراد کو پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا۔ کہا گیا کہ چودھری اسلم لیاری گینگ وار کے خلاف مصروفِ عمل تھے۔ مگر ان کا اس سلسلے میں بھی کوئی بڑا کارنامہ نظر نہیں آتا۔ وہ لیاری میں مسلسل چھاپے ضرور مارتے رہے مگر اس کی وجہ لیاری گینگ وار کی سرکوبی بالکل نہیں تھی۔ آج کل رینجرز، پولیس، سی آئی ڈی سب کا محبوب کام لیاری میں ہی چھاپے مارنا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ لیاری کے سارے مجرم بھتہ اور تاوان کی کروڑوں کی رقم کسی بینک میں رکھنے کے بجائے گھروں پر ہی رکھتے ہیں۔ لیاری اِس وقت سب کے لیے سونے کی چڑیا بنا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی چھاپے میں رقم یا سونے کی برآمدگی آج تک نہیں دکھائی گئی اور نہ ہی کوئی بڑا مجرم آج تک پکڑا گیا۔
رہی یہ بات کہ تحریک طالبان نے چودھری اسلم کو مارنے کی ذمہ داری قبول کرلی تو انہوں نے تو نائن الیون کی بھی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔ انہوں نے تو بے نظیر بھٹو کو بھی قتل کرنے کی ذمہ داری اگلے لمحے ہی قبول کرلی تھی۔ تحریک طالبان کی جانب سے چودھری اسلم کو مارنے کی ذمہ داری قبول کرنے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس سازش کے ڈانڈے کتنے اوپر تک جاتے ہیں۔ چودھری اسلم کبھی بھی فرشتہ صفت انسان نہیں رہا۔ وہ ایک عام سا سفاک اور انتہائی رشوت خور پولیس اہلکار تھا۔ پرویزمشرف کے دور میں جب وہ گرفتار کیا گیا تو اُس وقت وہ کروڑوں کے اثاثوں کا مالک تھا۔ اب تو اس کے اثاثوں کی مالیت کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہے۔ محض چند لاکھ کی رشوت سے انکار پر کسی بے گناہ کو دہشت گرد قرار دینا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا اور محض چند لاکھ وصول کرکے کسی مجرم کی سرپرستی کرنا بھی اس کی فطرت میں شامل تھا۔ چودھری اسلم نڈر اور بہادر بھی کہیں سے نہیں تھا۔ کسی بھی مجرم کی طرح وہ ہر وقت جان کے خوف میں مبتلا رہنے والا ایک عام سا مجرم پولیس اہلکار تھا۔ اپنے اسی خوف کو دبانے کے لیے وہ ہر وقت شراب کے نشے میں دھت رہتا تھا۔
ہاں اس کی ایک خوبی تھی جو اسے دیگر اہلکاروں سے ممتاز بناتی تھی، اور وہ خوبی یہ تھی کہ منصب اور روپے پیسے کے لیے وہ کچھ بھی کسی بھی وقت کرنے کو ہر دم تیار رہتا تھا۔ بادشاہ اور بادشاہ گروں کے اشارے پر اس نے درجنوں ماورائے عدالت قتل کیے جس میں عبدالرحمن ڈکیت بھی شامل تھا۔ پھر دائیں بازو سے لے کر بائیں بازو تک کے لوگ، کیوں اس کو شہید قرار دے رہے ہیں! کیوں مین اسٹریم میڈیا اس کے مرنے پر اتنا واویلا مچا رہا ہے! اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ چودھری اسلم ایک قربانی کا بکرا تھا۔ اب بکرے کی قربانی کو وصول کرنے کا وقت آگیا ہے۔ سیکورٹی کے بہانے ہی عوام کی آزادی سلب کی جاتی ہے۔ آقاؤں کے اشارے پر اِس وقت سب ہم آواز ہیں تاکہ بتایا جائے کہ طالبان کا نام نہاد دیو کتنا بڑا ہوچکا ہے۔ اس کو دبانے کے لیے شمالی وزیرستان سے لے کر کراچی تک ایک نیا آپریشن کیا جائے اور ان طالبان کا کچھ بگاڑا جائے یا نہ بگاڑا جائے مگر اسلام کا نام لینے والوں کو ضرور سبق دے دیا جائے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ دامِ ہم رنگِ زمیں سے خبردار رہیے۔ عالمی آقاؤں کی بولی بولنے والوں کو پہچانیے۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوںکو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔

مسعود انور

No comments:

Post a Comment