January 4, 2014

WHYONLYMUSHARRAF صرف مشرف کیوں؟








لگتا هے پاکستان سے غربت ، جھالت ، بھوک ، افلاس کا خاتمه صرف اس صورت میں ممکن هے جب مشرف کو ٹانگ دیا جایے. اگر مشرف کو 
آرٹیکل چھ ٦ کے تحت آءین توڑنے کی پاداش میں سزا سنا دی جایے تو یقینا اس ملک کے بنیادی مسایل ختم هوجاییں گے. موجوده حکمرانوں کا رویه تو کچھ ایسا هی هے.اور تو اور ماضی قریب کے حاکم جو اسی غدار مشرف کے کالے قانون این آر او کے بینیفشری هیں.اسی مشرف سے ان کی سزا کی معافی کی درخواست ان کی شھید زوجه نے کی تھی.ان کی شھید زوجه دبیی میں اسی غدار مشرف سے ڈیل کرکے معافی مانگ کے وطن واپس آیی تھیں.چلیں ان کی تو فطرت جانیں لیکن موجوده حکمران بھی اسی مشرف کے معاف کرنے پر جان بخشی کرنے پر معافی نامے لکه کر اس ملک کو لوٹ کر کھسوٹ کر نوٹ بریف کیسوں میں بھر کر اس ارض پاک سے گیے تھے. مشرف تو ٩٩ میں اقتدار په قابض هویے تھے آیین تو مشرف نے ٩٩ میں توڑا تھا.جب اس وقت کے وزیر اعظم کو ایک میجر رینک کے آدمی نے ایک ڈی ایس پی کی موجودگی میں چماٹے کراکے ھتھکڑی لگادی تھی تو غداری کا مقدمه ٢٠٠٧ نومبر سے کیوں؟  طیاره ھایی جیکنگ کیس کهاں جایے گا اور تو اور وه عدلیه کهاں جایے گی جس نے اس ایمرجنسی کو قانونی شکل دی.اگر آیین توڑنے کا جرم هوا تھا تو اکتوبر ٩٩ میں هوا تھا ٢٠٠٧ نومبر کو نھیں.٢٠٠٧ نومبر میں تو آیین معطل کیا گیا توڑا نه گیا تھا. بالفرض محال اگر موجوده حکمرانوں کی اس منتق کو مان لیا جایے که ٢٠٠٧ سے مقدمه قایم کیا جایے تو سوال یه پیدا هوتا هے که نومبر ٢٠٠٧ میں کیا آیین ٹوٹا تھا یا معطل هوا تھا؟ کیونکه مجھے جو یاد آتا هے که چاروں صوبایی اسمبلیاں بشمول قومی اسمبلی موجود تھی تو آیین تو موجود تھا اور اس ایمرجنسی کو اس وقت کی اسمبلی نے بھی منظور کیا. پوری کابینه آن بورڈ هویی تھی جو آج مشرف غدار کے نعرے مارتے نھیں تھک رهے انھوں نے پهلے نواز شریف کے جانے په مٹھاییاں بانٹیں پهر افتخار چوھدری کے نظر بند هونے په دیگیں چڑھاییں اور آج وه سب یا تو عمران خان کے گرد هیں یا نوازشریف کے گرد هیں. ٩٩کی ایمرجنسی هو یا ٢٠٠٧ کی ایمرجنسی مشرف صاحب نے بحیثیت آرمی چیف لگایی تھی.آرمی مین کے خلاف مقدمه اگر چلنا چاهیے تو آرمی کورٹس میں چلنا چاهیے.کیا کسی ایسی پارلیمانی یا عدالتی کمیٹی کی سربراھی میں جو که پچھلے دنوں میں مشرف کے حریف یا حلیف رهے هوں کسی بھی طرح قابل قبول هوگا؟ ھمارے میڈیا کے دوست بھی اپنے رویوں په غور کریں که جن کی مداح سرایی میں آج مشرف کو غدار کها جارها هے. یه میڈیا ٥٠ سال ان کے هاتھوں یرغمال رها هے.شام ٥ بجے سے لیکر رات ١٠ بجے تک صحافی برادری صرف وقت کے حاکمین کیلیے لکهتے تھے اور بولتے تھے.آزادی ازھار کا کویی تصور ٩٩ سے پهلے اس ملک میں نھیں تھا. سچ تو یه هے که همیں حقیقت پسندانه رویه اپنانا هوگا.ھم کو ماننا پڑے گا که ملک توڑنے والے یحیی خان کو تو اسٹیبلشمنٹ نے سبز ھلالی پرچم میں دفنایا. مکمل پروٹوکول دیا گیا، آءین توڑنے والے ایوب خان کا احتساب نه هوا بلکه فوجی اعزازات کے ساتھ دفنایا گیا، ضیا الحق پاکستان میں ھیروین و کلاشنکوف کلچر کی بنیاد آءین کا قاتل مکمل اعزازات کے ساتھ رخصت هوا لیکن مشرف آءین معطل کرنے کے جرم میں آج پابند سلاسل هے . مشرف نے چالیس سال وردی کو سینے سے لگایا تین جنگوں کا غازی بنا مملکت پاکستان کو ترقیوں سے روشناس کریا لیکن آھ کے یه سپاهی غدار ٹھرایا جارها هے. آخر کیوں… کیا من حیث القوم هم آج اتنے مرده هوچکے هیں که هماری سوچ بھی مقید هوچکی هے.هم یه نتیجه کیوں نھیں نکال رهے جو روشن ، اعتدال پسند اور ترقی یافته پاکستان کی بات کرے گا وه غدار وطن ٹھرے گا چاهے مشرف هوں یا الطاف حسین  اور جو دقیانوسی ،  افغانی پاکستان کی ، طالبان کے پاکستان کی بات کرے گا وه سردار وطن ٹھرے گا… 

No comments:

Post a Comment