March 22, 2013

HAZRA WALL GENOCIDE IN QUETTA


شیعہ ہزارہ برادری پرحملے ۔ امریکی پروپیگنڈا اورتلخ حقائق

admin
Feb 21 2013
کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ برادری پر دہشت گرد حملوں میں دو سو سے زائد افراد کی ہلاکت پرساری قوم مغموم ہے۔ ہرامن پسند پاکستانی ان پرتشدد کاروائیوں کی بھرپور مذمت کرتا اور ہزارہ برادری کےغم میں برابر کا شریک ہے۔ اس خون ریزی کے خلاف جاری احتجاج میں شیعہ برادری کی ہڑتال حکومت کی طرف سے وعدوں کےلارے لپوں کے بعد ختم ہو ئی توپورے ملک کےعوام نے کاروبار زندگی بحال ہونے پرسکون کا سانس لیا مگرصورت حال کے معمول پرآنےاورامن کی بحالی طرف سفرپر ملکی کربلا سے مفرورحسینیت کے علمبردارپیرآف لندن شریف الطاف حسین صاحب کو اتنا صدمہ پہنچا کہ وہ احتجاج ختم کرانے والی شیعہ قیادت پربرس پڑے۔ اس احتجاج کے خاتمےسےالطاف حسین جیسےان تمام سیاست دانوں کی دوکانداری کو شدید نقصان پہچا جو فرقہ واریت، لاشوں اور دہشت گردی کی سیاست کے بل بوتے پردیارغیرکے مغربی یزیدوں کی مخملی گودوں میں” حسینی سپہ سالار” بنے بیٹھے ہیں۔ سنا ہے کہ وزیر اعظم راجہ رینٹل صاحب نےشیعہ برادری کی تسلّی کیلئےایک چھ رکنی وفد کوئٹہ بھیجا ہےاوراس شدت پسندانہ حملے کے ذمّہ داروں کے خلاف  کاروائی کرنےکا وعدہ بھی کیا ہے۔ خدا نہ کرے کہ راجہ رینٹل جیسے ناقابل اعتبار مسخرے وزیر اعظم کےان وعدوں کا انجام بھی اورلوڈشیڈنگ برانڈ وعدوں جیسا ہی ہو
mz1اس ساری صورت حال پرامت مسلمہ کو تقسیم کرنے اور فرقہ واریت کی آگ پرتیل چھڑکنے والے الطاف برانڈ فتنہ گروں کے سامراجی آقا جہاں اپنے بھارتی اتحادیوں، مغربی ایجنسیوں اور سیاسی آلہ کاروں کے ذریعے دہشت اور موت کا کھیل کھیلتے ہیں۔ وہاں امریکی، مغربی اور ہندوآتہ پریس  افواج پاکستان اورایجسیوں کے خلاف شرانگیز پراپیگنڈے سےاپنے دجالی مقاصد کے حصول کیلئے کوشاں ہے۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائم نے لکھا ہے کہ “عام طور پر باور کیا جاتا ہےکہ ہزارہ برادری پر حملوں کا تعلّق انتہا پسند فرقہ وارانہ تنظیم لشکر طیبہ سے ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ کوئٹہ میں ان دونوں حملوں کی ذمہ داری کا دعویٰ اسی تنظیم نے کیا ہے، لیکن اس کے باوجود وُہ بلوچستان میں کھلم کُھلا سرگرم عمل ہے۔ اوراس کے لیڈرملک میں بلاخوف و خطر گُھوم پھررہے ہیں اورفرقہ وارارنہ منافرت پھیلا رہے ہیں، جب کہ فوج پرالزام ہے کہ وہ ان کی چشم پوشی کررہی ہے۔ اورصوبے کی حقوق انسانی کی تنظیموں کا کہنا ہےکہ ان انتہا پسندوں کو قوم پرستوں کو کُچلنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے”۔ نیو یارک ٹائمز کہتا ہے خُود رنربلوچستان ذوالفقارعلی مگسی نے انٹلی جنس سروسز پرالزام لگایا کہ یا تو وُہ انتہا پسندوں کا پیچھا  کرنے سے خوف زدہ ہیں یا پھر اُنہیں اُن کے بارے میں بالکل کوئی سُراغ نہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان نے امریکی مفادات کے تحفظ کی اس جنگ میں چالیس ہزار شہری اور پانچ ہزار سے زائد فوجی جوانوں کی قربانی دی ہے۔غیروں کیلئے لڑی جانے والی اس جنگ کے نتیجے میں پاکستانی معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ لیکن اخبار نےافواج پاکستان پرامریکی دباؤ بڑھانے کی “ڈو مور پالیسی” کے تحت مذید لکھتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت عام طور پر ہمیشہ فوج کے دباؤ کے سامنے جُھک جاتی ہے جسکا موقف یہ ہوتا ہے کہ طالبان بغاوت کے خلاف کاروائی کی وجہ سے اس کے وسائل پراتنا دباؤ ہے کہ وہ نئی کاروائی شروع کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
اس میں کوئی تعجب نہیں کہ امریکی اور بھارتی میڈیا ہمیشہ یک زبان ویک موقف  بولتا ہے۔ امریکہ میں گوروں کی گیارہ برس کی لڑکی حاملہ ہو تو الزام القاعدہ پراوربھارت میں پجاری کی لڑکی کسی رام بھگت کے ساتھ فرار ہوجائے تو الزام آئی ایس آئی یا لشکرطیبہ پرلگایا جاتا پے۔ سوکوئٹہ سانحات کی اصل وجوہات بتانے سے گریزاں امریکی یا بھارتی پریس اور میڈیا ان واقعات کا الزام بھی پاکستانی انٹیلی جنس کی نااہلی اورلشکر طیبہ پر لگا رہا ہے۔ حالانکہ حقائق بتاتے ہیں کہ بلوچستان میں بھی مشرقی پاکستان کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔علیحدگی پسندوں سے برامد ہونے والا اسلحہ میڈ ان بھارت اورامریکی پریس کی طرف سے دہشت گرد قرار دئے جانے والے لوگ بغیرختنوں کے ہندو نکلتے ہیں۔ لیکن انتہائی افسوس ناک سوالیہ نشان ہے کہ پاکستان کے ہجڑے، غدار حکومتی عناصربھارت کی مصدقہ دہشت گر سرگرمیوں کےحوالے سےعالمی برادری میں کوئی آوازاٹھانا تو درکناراپنے پسندیدہ ملک بھارت کا نام لینے سے بھی کتراتے ہیں۔
mazari-poster
احباب حقائق جاننے کیلئے ہمیں پندرہ بیس برس قبل کے کچھ تلخ مگر سچے حالات و واقعات کا جائزہ لینا ہو گا۔ میں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ نوے کی دہائی میں ایک شعیہ ہزارہ کمانڈر، بابا عبدالعلی مزاری امریکہ اورایران کی بھرپور سپورٹ کے ساتھ افغانستان میں ایک ایسی طاقت بن کرابھرا جو طالبان کیلئے ایک کھلا چیلنج تھی۔ بابا مزاری کے بارے یہ مشہورتھا کہ وہ سیاسی و فوجی مخالفین کی لاشوں میں پپٹرول بھرکرآگ لگاتے تھے۔ جس سے لاش میں بھرے پٹرول کو آگ لگنے پرلاش زمین پر اچھلتی کودتی ہوئی پھٹ کر ٹکرے ٹکرے ہوتی اوراسے”موت کے رقص ” کا نام دینے والے ہزارہ جنگجو جشن فتح مناتے تھے۔ امریکی اور ایرانی حمایت کے ساتھ موت کا یہ سفاک کھیل اس وقت تک جاری رہا جب تک طالبان نے باباعبدلعلی مزاری کو مزاکرات کے بہانے کابل بلوا کران کوساتھیوں سمیت گرفتارنہیں کرلیا۔ بعد ازاں طالبان نے قتل بعد ان کی لاش کو ہیلی کاپٹرسے لٹکا کرہوا سے زمین پرپھینک دیا گیا۔ باباعلی مزاری کا جنازہ چالیس دن کے ریکارڈ پیدل سفر کے بعد غزنی سے مزارشریف پہنچایا گیا۔ جہاں آج بھی ان کا مزار اور یادگاری مجسمہ شیعہ ہزارہ لوگوں کیلئے زیارت کا درجہ رکھتا ہے۔ آج بھی شعیہ ہزارہ قبائل اس بابا علی مزاری کو اپنا پیر و مرشد اور روحانی رہنما مانتے ہیں جس کی شدت پسندی اورجنگی جرائم کے بدلے وہ طالبان یا طالبان کو بدنام کرنے ولے عناصر کے خفیہ ہاتھوں کا شکارہو کرمر رہے ہیں۔ آج عالمی کالم نگاروں اورمغربی  پریس کا بھی یہی کہنا ہے اورافغان جنگ کی تاریخ و حقائق سے واقفیت رکھنے والے بعض احباب کا بھی یہی گمان ہے کہ طالبان یا ان کی حمایتی طاقتیں بابا علی مزاری گروپ کی طرف سے کئے گئے مظالم کا بدلہ شعیہ ہزارہ قبائل سے لے رہی ہیں۔ مگرکچھ دانشور یہ موقف بھی رکھتے ہیں کہ بلوچستان میں جاری دہشت گردیوں اور فرقہ وارانہ تشدد کے پیچھے امریکی ایما پر بھارتی خفیہ ہاتھ  بھی حرکت میں ہیں۔
افسوس کہ اس ساری صورت حال کا فائدہ وہی اسلام دشمن سامراجی عناصر اٹھا رہے ہیں۔ جو پہلے شیعہ ہزارہ لیڈر بابا علی مزاری کے ہاتھوں طالبان کا قتل عام کرواتے رہےاوراب حواری بھارتی اورمغربی ایجنسیوں کے ہاتھوں شعیہ ہزارہ لوگوں کا قتل عام کروا کرپاکستان کو فرقہ واریت د،ہشت گردی اوربد امنی کی آگ میں دھکیل رہے ہیں۔ نیو یارک ٹائم اور دوسرے امریکی صحافیوں کو حقائق تسلیم کرنا ہوں گے کہ طالبان اور شیعہ ہزارہ قبائل کے درمیان نفرت اورانتقام کا کھیل شروع کروانے والےخود امریکی اوراس کے خلاف مغربی سامراجی ہی تھے۔ افسوس تواس بات کا ہے کہ نفرت اورانتقام کےاس سارے کھیل میں مرنے والے ان امن پسند شعیہ ہزارہ لوگوں کا کوئی قصورنہیں جو طالبان اورہزارہ جنگجو قبائل کی باہمی دشمنی سے بے نیاز پرسکون زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ کاش کہ یہ امت امریکی سازش کے مطابق تقسیم نہ ہوتی۔ اے کاش کہ نفرت اور انتقام کی یہ آگ بابا علی مزاری کی موت کے ساتھ ہی ٹھنڈی ہوجاتی  ۔ ۔  فاروق درویش

No comments:

Post a Comment