……خواہشات اور اعلانات پر مختصر مذاکراتی عمل کے مبینہ آغاز سے قبل ہی تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی سربراہ حکیم اللہ محسود کی ڈرون کے ذریعے ہلاکت کے واقعے نے ریاست پاکستان کو اس کی مبہم پالیسیوں کے باعث ایک بار پھر شدید مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ متعدد نئے مگر اہم سوالات کا حکومت پاکستان کے پاس یا تو کوئی جواب نہیں اور اگر ہے تو وہ تضادات کا مجموعہ ہوا کرتا ہے۔ جس روز حکیم اللہ محسود کو ساتھیوں سمیت ڈرون حملے کا نشانہ بنایا گیا اس روز ان کی رہائش گاہ پر ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈر اکٹھے ہو گئے تھے اور ان کے اس اجلاس میں بعض دوسرے معاملات کے علاوہ یہ بھی طے کرنا تھا کہ پاکستانی ریاست کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو کن ذرائع اور کن شرائط کے ذریعے آگے بڑھایا جا سکے۔
ان کی ہلاکت کے واقع نے نہ صرف ٹی ٹی پی کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ اس عمل کا سلسلہ بھی یکدم ڈیڈلاک کا شکار ہوا جس کا ابھی باقاعدہ آغاز بھی نہیں ہوا تھا۔ باخبر ذرائع کے مطابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا ہلاکت کے فوراً بعد کیا گیا، وہ دعویٰ قطعاً بے بنیاد اور غلط تھا کہ حکومت اگلے روز تین رکنی کمیٹی وزیرستان بھیجنے والی تھی۔ ہم شہری کو معتبر ترین ذرائع نے بتایا کہ دو جید علما اور ایک اہم قبائلی سردار پر مشتمل جس حکومتی مذاکراتی ٹیم کا دعویٰ کیا گیا تھا اُس کا عملاً سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا اور چوہدری نثار نے دروغ گوئی سے کام لیا تھا۔ ذرائع کے مطابق چوہدری صاحب کے اتنے بڑے دعوے یا اعلان کے بعد جب مذکورہ تین افراد سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کمیٹی کے باقاعدہ قیام یا مذکرات کے لیے وزیرستان روانگی کی اطلاعات سے لاعلمی ظاہر کی تاہم انہوں نے یہ اعتراف ضرور کیا کہ وفاقی حکومت نے ایک مذہبی سیاسی رہنما کے کہنے پران سے اس عمل میں معاونت کے لیے رابطے ضرور کیے تھے۔ اہم طالبان ذرائع نے بھی اس ضمن میں مذکورہ تین رکنی کمیٹی کی روانگی یا ملاقات کے دعوے یا اطلاعات سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے مؤقف اپنایا ہے کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے دن تک ان کو مذکورہ کمیٹی یا جرگہ کی آمد کا کوئی علم نہیں تھا۔
اس صورت حال سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہتا کہ حکومت کے وزیر داخلہ کی سطح پر کیے گئے وعدے یا اعلان کا حقیقت سے کوئی لاتعلق نہیں تھا اور انہوں نے محض عالمی برادری خصوصاً امریکہ اور بعض پرو طالبان حلقوں کو پیغام دینے کے لیے یہ حربہ استعمال کیا تھا۔ دوغلی پالیسی اور غیر سنجیدگی کا یہ عالم رہا کہ امریکہ نے اس حکومتی دعوے کو بھی غلط قرار دیا جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت نے مذکورہ ڈرون حملے پر ریاستی اور سفارتی سطح پر امریکہ سے شدید احتجاج کیا تھا۔
معتبر ذرائع نے ہم شہری کو بتایا کہ وزارت داخلہ نے اپنے طور پر طالبان کو تیسرے ذرائع سے یقین دہانی کرائی تھی کہ حکیم اللہ محسود سمیت تمام اہم کمانڈروں کو اپنی سرگرمیوں اور میٹنگز وغیرہ کی کھلی اجازت ہے اور حکومت کی جانب سے ان کو کچھ نہیں کہا جائے گا بلکہ طالبان کے اپنے سرکلز میں مشاورتی عمل کو مقامی سطح پر حکومت اور فورسز کی طرف سے معاونت فراہم کی جائے گی۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے جب اس اطلاع یا پیشکش کے بعد سوال اٹھایا گیا کہ ان کو ڈرون سے خطرہ ہے اگر ڈرون نے حملہ کیا تو کیا ہو گا تاہم حکومت نے جب معمولی غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے ان کو بتایا کہ امریکہ سے یقین دہانی حاصل کی گئی ہے کہ مذاکراتی عمل کے دوران ڈرون حملے نہیں کرائے جائیں گے۔ اپنی غلط بیانیوں اور دعوؤں کے بعد طالبان کے کمانڈروں نے نقل و حرکت شروع کی اور مذکورہ اجلاس بھی اپنی یقین دہانیوں یا غلط بیانیوں کے بعد بلایا گیا تھا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی ڈرون حملے کے بعد کھل کر کہا کہ امریکہ نے ان کو یقین دہانی کرائی تھی کہ مذاکراتی عمل کے دوران حملہ نہیں کیا جائے گا۔ حملے کے بعد طالبان پر ایک بار یہ بات واضح ہو گئی کہ حکومت پاکستان غلط بیانی اور جھوٹے وعدوں سے کام لیتی رہی ہے اور اسی کا نتیجہ تھا کہ طالبان نے مذاکراتی عمل(مبینہ)سے فوری علیحدگی کے علاوہ شدید ردّعمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ کے علاوہ پاکستان سے بھی بدلہ لینے کا اعلان کر دیا۔
دوسری طرف امریکی حکام کا کہنا ہے کہ دورہ امریکہ کے دوران یا اس کے بعد حکومت پاکستان کو ایسی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی تھی کہ طالبان یا کسی اور پر ڈرون حملہ نہیں کیا جائے گا۔ امریکی حکام اور ذرائع کے مطابق ایسی کسی یقین دہانی یا پیشکش پر سرے سے کوئی بات ہی نہیں ہوئی تھی۔ ان ذرائع کے مطابق حکیم اللہ محسود امریکہ کے علاوہ پاکستانی ریاست کو بھی مطلوب تھا اور ریاست نے ان کے سر پر کروڑوں روپے کا انعام مقرر کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب مذکورہ گھر میں ان کی موجودگی کی اطلاع مل گئی تو انہوں نے دونوں ممالک کے مشترکہ دشمن کے طور پر حکیم اللہ کو نشانہ بنایا اور اب وہ اس دنیا میں موجود نہیں۔
امریکی حکام کا مؤقف ہے کہ اتحادی ممالک کے درمیان اس قسم کے معاملات پر باقاعدہ مشاورت ہوتی ہے۔ چونکہ یہ محض پاکستان کا معاملہ نہیں تھا بلکہ موصوف عالمی سطح پر بھی مطلوب تھے اس لیے یہ کہنا کہ امریکہ نے زیادتی کی ہے، سفارتی سطح پر درست نہیں ہے۔ حکومت پاکستان اور بعض مذہبی، سیاسی قوتوں کے علاوہ میڈیا کے بعض حلقوں نے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد تمام صورت حال کی ذمہ داری امریکہ پر ڈالنا شروع کی اور اس قسم کا تاثر دیا جانے لگا جیسے مذکورہ واقعے ہی کے باعث مبینہ مذاکراتی عمل سبوتاژ ہوا ہے حالانکہ مذاکراتی عمل کا ابھی آغاز بھی نہیں ہوا تھا اور اس بات کا دوسروں کے علاوہ خود طالبان پر اعلیٰ ترین سطح پر بار بار اظہار بھی کرتے آ رہے تھے۔ دوسری بات یہ تھی کہ یہ فاٹا پر 339 واں ڈرون حملہ تھا اور مذاکرات کے اعلان کے بعد یہ وزیرستان پر کرایا گیا چوتھا حملہ تھا۔
یہ دعویٰ قطعاً بے بنیاد نکلا کہ حکومت نے واقعتاً امریکہ کو ڈرون حملے رکوانے کا کوئی سنجیدہ مطالبہ کیا تھا یا دوران مذاکرات امریکہ نے اس قسم کی کوئی یقین دہانی کرائی تھی کہ اس عرصہ کے اندر ڈرون حملہ نہیں کرایا جائے گا۔ اسی نکتے پر طالبان مشتعل بھی ہیں، ناراض بھی اور ان کا ردّعمل بھی عین منطق کے مطابق ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ عملاً طالبان کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کے لیے ریاست کی جانب سے کوئی قابل عمل روڈ میپ بھی سامنے نہیں آیا تھا بلکہ حکومتی اقدامات محض اعلانات تک محدود تھے تاہم طالبان اپنے طور پر باہمی مشاورت میں مصروف عمل تھے اور حکومت کی بجائے ان کا مؤقف واضح اور درست تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ بار بار یہی کہتے رہے کہ حکومت نے ان کے ساتھ تاحال رابطہ ہی نہیں کیا تھا۔ تضادات پر مبنی ریاستی پالیسیوں کا اندازہ لگانے کے لیے محض اس واقعے کا حوالہ ہی کافی ہے کہ پہلے تو دوسرے دن تین رکنی کمیٹی کوئی جا نہیں رہی تھی اور یہ کہ مذکورہ تین شخصیات کے بارے میں جو دعویٰ کیا گیا تھا وہ اپنی مبینہ ”روانگی سے خو دبھی بے خبر تھے۔
اس عرصہ میں عمران خان اور ان کی صوبائی حکومت کا مؤقف اور بھی جذباتی اپروچ پر مشتمل رہا۔ وہ اس تمام عمل کو محض ڈرون حملوں کا سبب قرار دے کر یکطرفہ چلاتے رہے اور ان کا تصور یہی رہا کہ جیسے ہی ڈرون حملے ختم ہوں گے نہ صرف یہ کہ مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے بلکہ جاری جنگ کا خاتمہ بھی ہو جائے گا۔ حالانکہ حکیم اللہ محسود ایک انٹرویو میں دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی کہہ چکے تھے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد بھی ان کی جدوجہد اور جنگ جاری رہے گی اور یہ کہ وہ اپنے مقاصد کی حصول تک یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔ صوبائی حکومت اور عمران خان نے اس حملے کے بعد اعلان کیا کہ فلاں تاریخ سے نیٹو کی سپلائی بند کر دی جائے گی حالانکہ ایسا کرنا صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا اور یہ فیڈرل سبجیکٹ اور سفارتی ایشو ہے۔
اگر 20 نومبر کو صوبائی حکومت یا تحریک انصاف سپلائی لائن بند نہیں کرتی تو اس کے باعث عوام اور کارکنوں کا ردّعمل کیا ہو گا شاید یہ عمران خان اور ان کی حکومت کو اس کا احساس بھی نہیں اور وہ جذباتی انداز میں سیاست کے علاوہ صوبے کو بھی چلانے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔
رہی بات اس تاثر کی کہ ٹی ٹی پی کے اندر قیادت کے معاملے پر اس نوعیت کے اختلافات پیدا ہوں گے کہ وہ تقسیم ہو جائے گی تو کسی بھی گوریلا تنظیم میں اس بات کا بہت ہی کم امکان پایا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ نئے امیر کے معاملے پر حسب سابق اب کے بار بھی اختلافات موجود تھا یا ہے تاہم جب بھی نئے امیرکا انتخاب عمل میں لایا گیا ٹی ٹی پی پھر سے متحد ہو کر متحرک ہو جائے گی کیونکہ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق مستقبل کے منظرنامے اور مذاکراتی عمل کے آغاز کا انحصار اس بات پر ہے کہ نیا امیر کون بنتا ہے۔ اگر پرو مذاکرات کمانڈر نیا امیر بنتا ہے تو اس سے حکومت کی مشکلات کم اور اگر اینٹی مذکرات کمانڈر امیر بنتا ہے تو اس سے مشکلات مزید بڑھ جائیں گی تاہم اس وقت حالت یہ ہے کہ اینٹی مذاکرات کمانڈروں کا غلبہ ہے اور تحریک جنگ کے موڈ میں ہے۔
ان کی ہلاکت کے واقع نے نہ صرف ٹی ٹی پی کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ اس عمل کا سلسلہ بھی یکدم ڈیڈلاک کا شکار ہوا جس کا ابھی باقاعدہ آغاز بھی نہیں ہوا تھا۔ باخبر ذرائع کے مطابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا ہلاکت کے فوراً بعد کیا گیا، وہ دعویٰ قطعاً بے بنیاد اور غلط تھا کہ حکومت اگلے روز تین رکنی کمیٹی وزیرستان بھیجنے والی تھی۔ ہم شہری کو معتبر ترین ذرائع نے بتایا کہ دو جید علما اور ایک اہم قبائلی سردار پر مشتمل جس حکومتی مذاکراتی ٹیم کا دعویٰ کیا گیا تھا اُس کا عملاً سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا اور چوہدری نثار نے دروغ گوئی سے کام لیا تھا۔ ذرائع کے مطابق چوہدری صاحب کے اتنے بڑے دعوے یا اعلان کے بعد جب مذکورہ تین افراد سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کمیٹی کے باقاعدہ قیام یا مذکرات کے لیے وزیرستان روانگی کی اطلاعات سے لاعلمی ظاہر کی تاہم انہوں نے یہ اعتراف ضرور کیا کہ وفاقی حکومت نے ایک مذہبی سیاسی رہنما کے کہنے پران سے اس عمل میں معاونت کے لیے رابطے ضرور کیے تھے۔ اہم طالبان ذرائع نے بھی اس ضمن میں مذکورہ تین رکنی کمیٹی کی روانگی یا ملاقات کے دعوے یا اطلاعات سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے مؤقف اپنایا ہے کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے دن تک ان کو مذکورہ کمیٹی یا جرگہ کی آمد کا کوئی علم نہیں تھا۔
اس صورت حال سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہتا کہ حکومت کے وزیر داخلہ کی سطح پر کیے گئے وعدے یا اعلان کا حقیقت سے کوئی لاتعلق نہیں تھا اور انہوں نے محض عالمی برادری خصوصاً امریکہ اور بعض پرو طالبان حلقوں کو پیغام دینے کے لیے یہ حربہ استعمال کیا تھا۔ دوغلی پالیسی اور غیر سنجیدگی کا یہ عالم رہا کہ امریکہ نے اس حکومتی دعوے کو بھی غلط قرار دیا جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت نے مذکورہ ڈرون حملے پر ریاستی اور سفارتی سطح پر امریکہ سے شدید احتجاج کیا تھا۔
معتبر ذرائع نے ہم شہری کو بتایا کہ وزارت داخلہ نے اپنے طور پر طالبان کو تیسرے ذرائع سے یقین دہانی کرائی تھی کہ حکیم اللہ محسود سمیت تمام اہم کمانڈروں کو اپنی سرگرمیوں اور میٹنگز وغیرہ کی کھلی اجازت ہے اور حکومت کی جانب سے ان کو کچھ نہیں کہا جائے گا بلکہ طالبان کے اپنے سرکلز میں مشاورتی عمل کو مقامی سطح پر حکومت اور فورسز کی طرف سے معاونت فراہم کی جائے گی۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے جب اس اطلاع یا پیشکش کے بعد سوال اٹھایا گیا کہ ان کو ڈرون سے خطرہ ہے اگر ڈرون نے حملہ کیا تو کیا ہو گا تاہم حکومت نے جب معمولی غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے ان کو بتایا کہ امریکہ سے یقین دہانی حاصل کی گئی ہے کہ مذاکراتی عمل کے دوران ڈرون حملے نہیں کرائے جائیں گے۔ اپنی غلط بیانیوں اور دعوؤں کے بعد طالبان کے کمانڈروں نے نقل و حرکت شروع کی اور مذکورہ اجلاس بھی اپنی یقین دہانیوں یا غلط بیانیوں کے بعد بلایا گیا تھا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی ڈرون حملے کے بعد کھل کر کہا کہ امریکہ نے ان کو یقین دہانی کرائی تھی کہ مذاکراتی عمل کے دوران حملہ نہیں کیا جائے گا۔ حملے کے بعد طالبان پر ایک بار یہ بات واضح ہو گئی کہ حکومت پاکستان غلط بیانی اور جھوٹے وعدوں سے کام لیتی رہی ہے اور اسی کا نتیجہ تھا کہ طالبان نے مذاکراتی عمل(مبینہ)سے فوری علیحدگی کے علاوہ شدید ردّعمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ کے علاوہ پاکستان سے بھی بدلہ لینے کا اعلان کر دیا۔
دوسری طرف امریکی حکام کا کہنا ہے کہ دورہ امریکہ کے دوران یا اس کے بعد حکومت پاکستان کو ایسی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی تھی کہ طالبان یا کسی اور پر ڈرون حملہ نہیں کیا جائے گا۔ امریکی حکام اور ذرائع کے مطابق ایسی کسی یقین دہانی یا پیشکش پر سرے سے کوئی بات ہی نہیں ہوئی تھی۔ ان ذرائع کے مطابق حکیم اللہ محسود امریکہ کے علاوہ پاکستانی ریاست کو بھی مطلوب تھا اور ریاست نے ان کے سر پر کروڑوں روپے کا انعام مقرر کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب مذکورہ گھر میں ان کی موجودگی کی اطلاع مل گئی تو انہوں نے دونوں ممالک کے مشترکہ دشمن کے طور پر حکیم اللہ کو نشانہ بنایا اور اب وہ اس دنیا میں موجود نہیں۔
امریکی حکام کا مؤقف ہے کہ اتحادی ممالک کے درمیان اس قسم کے معاملات پر باقاعدہ مشاورت ہوتی ہے۔ چونکہ یہ محض پاکستان کا معاملہ نہیں تھا بلکہ موصوف عالمی سطح پر بھی مطلوب تھے اس لیے یہ کہنا کہ امریکہ نے زیادتی کی ہے، سفارتی سطح پر درست نہیں ہے۔ حکومت پاکستان اور بعض مذہبی، سیاسی قوتوں کے علاوہ میڈیا کے بعض حلقوں نے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد تمام صورت حال کی ذمہ داری امریکہ پر ڈالنا شروع کی اور اس قسم کا تاثر دیا جانے لگا جیسے مذکورہ واقعے ہی کے باعث مبینہ مذاکراتی عمل سبوتاژ ہوا ہے حالانکہ مذاکراتی عمل کا ابھی آغاز بھی نہیں ہوا تھا اور اس بات کا دوسروں کے علاوہ خود طالبان پر اعلیٰ ترین سطح پر بار بار اظہار بھی کرتے آ رہے تھے۔ دوسری بات یہ تھی کہ یہ فاٹا پر 339 واں ڈرون حملہ تھا اور مذاکرات کے اعلان کے بعد یہ وزیرستان پر کرایا گیا چوتھا حملہ تھا۔
یہ دعویٰ قطعاً بے بنیاد نکلا کہ حکومت نے واقعتاً امریکہ کو ڈرون حملے رکوانے کا کوئی سنجیدہ مطالبہ کیا تھا یا دوران مذاکرات امریکہ نے اس قسم کی کوئی یقین دہانی کرائی تھی کہ اس عرصہ کے اندر ڈرون حملہ نہیں کرایا جائے گا۔ اسی نکتے پر طالبان مشتعل بھی ہیں، ناراض بھی اور ان کا ردّعمل بھی عین منطق کے مطابق ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ عملاً طالبان کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کے لیے ریاست کی جانب سے کوئی قابل عمل روڈ میپ بھی سامنے نہیں آیا تھا بلکہ حکومتی اقدامات محض اعلانات تک محدود تھے تاہم طالبان اپنے طور پر باہمی مشاورت میں مصروف عمل تھے اور حکومت کی بجائے ان کا مؤقف واضح اور درست تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ بار بار یہی کہتے رہے کہ حکومت نے ان کے ساتھ تاحال رابطہ ہی نہیں کیا تھا۔ تضادات پر مبنی ریاستی پالیسیوں کا اندازہ لگانے کے لیے محض اس واقعے کا حوالہ ہی کافی ہے کہ پہلے تو دوسرے دن تین رکنی کمیٹی کوئی جا نہیں رہی تھی اور یہ کہ مذکورہ تین شخصیات کے بارے میں جو دعویٰ کیا گیا تھا وہ اپنی مبینہ ”روانگی سے خو دبھی بے خبر تھے۔
اس عرصہ میں عمران خان اور ان کی صوبائی حکومت کا مؤقف اور بھی جذباتی اپروچ پر مشتمل رہا۔ وہ اس تمام عمل کو محض ڈرون حملوں کا سبب قرار دے کر یکطرفہ چلاتے رہے اور ان کا تصور یہی رہا کہ جیسے ہی ڈرون حملے ختم ہوں گے نہ صرف یہ کہ مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے بلکہ جاری جنگ کا خاتمہ بھی ہو جائے گا۔ حالانکہ حکیم اللہ محسود ایک انٹرویو میں دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی کہہ چکے تھے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد بھی ان کی جدوجہد اور جنگ جاری رہے گی اور یہ کہ وہ اپنے مقاصد کی حصول تک یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔ صوبائی حکومت اور عمران خان نے اس حملے کے بعد اعلان کیا کہ فلاں تاریخ سے نیٹو کی سپلائی بند کر دی جائے گی حالانکہ ایسا کرنا صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا اور یہ فیڈرل سبجیکٹ اور سفارتی ایشو ہے۔
اگر 20 نومبر کو صوبائی حکومت یا تحریک انصاف سپلائی لائن بند نہیں کرتی تو اس کے باعث عوام اور کارکنوں کا ردّعمل کیا ہو گا شاید یہ عمران خان اور ان کی حکومت کو اس کا احساس بھی نہیں اور وہ جذباتی انداز میں سیاست کے علاوہ صوبے کو بھی چلانے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔
رہی بات اس تاثر کی کہ ٹی ٹی پی کے اندر قیادت کے معاملے پر اس نوعیت کے اختلافات پیدا ہوں گے کہ وہ تقسیم ہو جائے گی تو کسی بھی گوریلا تنظیم میں اس بات کا بہت ہی کم امکان پایا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ نئے امیر کے معاملے پر حسب سابق اب کے بار بھی اختلافات موجود تھا یا ہے تاہم جب بھی نئے امیرکا انتخاب عمل میں لایا گیا ٹی ٹی پی پھر سے متحد ہو کر متحرک ہو جائے گی کیونکہ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق مستقبل کے منظرنامے اور مذاکراتی عمل کے آغاز کا انحصار اس بات پر ہے کہ نیا امیر کون بنتا ہے۔ اگر پرو مذاکرات کمانڈر نیا امیر بنتا ہے تو اس سے حکومت کی مشکلات کم اور اگر اینٹی مذکرات کمانڈر امیر بنتا ہے تو اس سے مشکلات مزید بڑھ جائیں گی تاہم اس وقت حالت یہ ہے کہ اینٹی مذاکرات کمانڈروں کا غلبہ ہے اور تحریک جنگ کے موڈ میں ہے۔
No comments:
Post a Comment