November 11, 2013

دو جرنیل، دو کہانیاں...کس سے منصفی چاہیں ۔۔۔۔۔۔انصار عباسی



امریکا نے پاکستان میں دہشتگردی کو ہوا دینے کے لیے وہی کیا جس کی اُس سے توقع تھی اور جس کو وہ ماضی میں بار بار دہرا چکا ہے۔ مگر ہمارے کچھ لوگ ہیں جن کی حکیم اللہ محسود کی ڈرون سے مرنے پر باچھیں کھل گئیں گویا کہ دہشتگردی ختم ہو گئی۔ اُن کے خیال میں امریکا نے حکیم ا للہ کو مار کر ہم پر بڑا احسان کیا۔ یہی احسان پہلے بھی بار بار ہم پر کیے گئے مگر ہر ایسے احسان کے بعد پاکستان میں دہشتگردی میں اضافہ ہوا جو ہمارے ـ’’محسن‘‘ امریکا کا اصل مقصد ہے۔ مجھے تعجب ریٹائرڈ میجر جنرل کو سن کر ہوا۔ جناب فرماتے ہیں کہ امریکا نے ڈرون حملہ سے حکیم اللہ کو مار کر در اصل پاکستان کی مدد کی ہے۔ کوئی عام شخص یہ کہتا تو اس کی بات کو سنی ان سنی کیا جا سکتا تھا مگر ایک ایسا شخص جس کا تعلق پاکستان کی فوج سے رہا ہواور جو میجر جنرل کے عہدے پر پہنچ کر ریٹائر ہوا اگر وہ یہ کہے تو بڑی مایوسی کی بات ہے۔ کوئی جنرل کسی غیرملکی فوج کی اپنے ملک میں غیر قانونی کارروائی کو یہ رنگ دے تو میرے نزدیک تو یہ بڑے شرم کی بات ہے۔ شکر ہے موصوف میجر جنرل بن کر ریٹائرہو گئے ورنہ ایسا کوئی افسر فوج کا سپہ سالار بن جائے تو پھر تو امریکا اور اس کی فوج کو اپنی مدد کے لیے کب کے پاکستان میں آنے کی دعوت دے چکے ہوتے۔ میں سمجھتا تھا کہ جنرل مشرف ہی اپنی ایسی اوصاف میں یکتا تھے مگر یہاں تو اور بھی جرنیل ایسے ہیں جو امریکا کی جارحیت کو ٹھیک سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے عوام اپنی فوج پر ہر سال تقریباً چھ سو ارب روپے خرچ کرتی ہیں۔ اس کے باوجود اگر ہماری فوج کا کوئی جنرل غیر ملکی جارحیت کو سراہے اور یہ کہے کہ امریکا نے ہماری سرزمین میں ہمارے کسی مطلوب مجرم کو مارکر ہماری مدد کی تو سوال یہ پیدا ہوتا کہ پھر ایسی فوج اور ایسے جنرل کس مرض کی دوا ہیں۔ اگر غیرملکی فوج کی ایسی کارروائی کسی بھی طور پر جائز قرار دی جائے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے تو اپنی خود مختاری کا سودا کردیا۔ میری ذاتی رائے میں فوج کی ہائی کمانڈ کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ وہ اس بات کا جائزہ لے کہ فوج میں ایسی شکست خوردہ سوچ نے کیوں جنم لیا۔ اس امر کو بھی دیکھے جانے کی ضرورت ہے کہ آخر ایسی سوچ کے حامل افراد فوج میں اعلیٰ عہدوں پر کیسے پہنچ جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں افواج پاکستان کے تربیتی نظام، پروموشن سسٹم اور افسروں کو جانچنے کے طریقہ کار کو باریکی سے دیکھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہمارے سسٹم میں اُس خرابی کو دور کیا جائے جس کی وجہ سے جنرل مشرف اور اس ریٹائرڈ میجر جنرل جیسے لوگ آرمی کی اعلیٰ کمانڈ تک پہنچ کر غیر ملکی فوج کو پاکستان کے اندر ڈرون حملے کرنے کی نہ صرف اجازت دیتے ہیں بلکہ اُسے پاکستان کے لیے مدد تصور کرتے ہیں۔ایسے جرنیلوں کے لیے میںایک اور سابق جرنیل ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز کی کتاب ’’یہ خاموشی کہاں تک؟‘‘ کے کچھ اقتباسات پیش کررہا ہوں۔ جنرل عزیز لکھتے ہیں:

Lieutenant-General Shahid Aziz
’’دہشتگردی کے خلاف یہ جنگ اصل میں سیاسی نظریہ اسلام کے خلاف جنگ ہے......... امریکہ اور اُس کے پجاریوں کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو دین کے ایسے رنگ میں ڈھال لیا جائے، کہ سیکولر سوچوں کو ترقی پسند کہا جائے تا کہ دیندار لوگ جہالت کے الزام کے خوف سے منہ چھپاتے رہیں........اللہ نے صاف کہا تھا کہ یہ شیطان کے پجاری کبھی تمھارے دوست نہیں ہو سکتے۔ مگر دوست تو کیا، ہم نے تو انہیں اپنا ولی بنا لیا، اپنا آقا مان لیا، اپنا رازق۔ اور یہ بھی اللہ نے کہا تھا کہ شیطان کے ساتھی تمھارے کھلے دشمن ہیں۔ آج ان کی دشمنی کسی سے چھپی ہوئی تو نہیں۔ اگر ان کی سازشوں کے جالوں سے نہیں، تو چالوں سے تو سب ہی واقف ہیں۔ چلو ہم اللہ کے احکامات کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ دنیا داری جو کرنی ہوئی۔ کہتے ہیں ملک تو ان ہی بنیادوں پر چلتا ہے تم جہالت کی باتیں نہ کرو۔ دنیا کے ساتھ ملک کر چلنا ہو گا۔ بارہ سال ہو گئے۔ امریکہ کے قدم سے قدم ملاتے، جوتے چاٹتے، کافروں سے مل کر مسلمانوں کا قتل کرتے۔ کیا دہشتگردی ختم ہو گئی؟ کیا معیشت سنبھل گئی؟ کاروبار چمک گئے؟ بے روزگاری دور ہو گئی؟ بھوک مٹ گئی؟ کیا آج پاکستان پہلے سے زیادہ محفوظ ہو گیا؟ عورتوں کو امن، عزت اور تحفظ مل گیا؟ کیا ہمارے چہروں کی مسکراہٹیں لوٹ آئیں؟ کیا کوئی امید کی کرن باقی رہ گئی؟ کس شیطانی دھوکے پر ہم امریکہ کے پیچھے چلتے تھے؟ جس راہ پر انصاف نہیں، اُس پر امن کی کوئی امید نہیں..........

امریکہ کے اعلان کے مطابق دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ بہت لمبے عرصے تک چلے گی، یوں کہیے کہ ختم ہونے والی نہیں۔ اگر امریکہ اس خطے میں امن چاہتا، تو امن کی کوئی راہ تلاش کی ہوتی۔ انہیں یہاں امن کی نہیں، دہشت گردی کی ضرورت ہے اور وہ اپنی کارروائیوں سے اور ـ’’دہشت گرد‘‘ پیدا کر رہے ہیں۔ ان کی انٹیلیجنس ایجنسیاں پاکستان میں تمام تخریبی کارروائیوں میں شامل ہیں اور ہماری حکومت کے پاس ان سب کے ثبوت موجود ہیں، مگر خاموش رہتے ہیں......‘‘ جنرل عزیز جنہوں نے مشرف کی پالیسیوں کو بہت قریب سے دیکھا ایک اور جگہ کتاب میں لکھتے ہیں: ’’پھر ایک اسلامی مملکت کو امریکہ کے ہاتھوں بکتے دیکھا۔ ـ’قومی مفاد کی خاطر‘ اور آہستہ آہستہ ایک طاقتور حکمران کو چھپ چھپ کر، ٹکڑوں میں، سوئی ہوئی قوم کی آزادی کا سودا کرتے دیکھا، لال مسجد میں انسانوں کو جلتے دیکھا، انصاف کی دھجیاں اُڑتے دیکھیں۔ سب ’قومی مفاد کی خاطر‘ اور نجانے اس ملک میں کیا کیا ہو گا، ’قومی مفاد کی خاطر‘۔‘‘

No comments:

Post a Comment