November 10, 2013

طالبان کی جانب سے جنسی ہتھکنڈوں کا استعمال اسلام سے متصادم پاکستانی سرگرم کارکنوں نے نو عمر افراد پر جنسی حملوں یا انہیں جنسی طور پر ابھارنے کے ذریعے ان سے زیادتی کے امکان کی مذمت کی ہے۔

دیر کا نوٹ: عسکریت پسندوں کی جانب سے نوجوانوں کو خودکش مشنوں کے لیے بھرتی کرنے کے غیر اخلاقی طریقے اپنانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تاہم جنسی زیادتی سے متعلق منظر عام پر آنے والی خبروں پر عوام میں تشویش بڑھ رہی ہے۔ سینٹرل ایشیا آن لائن اس قسم کی کوششوں پر پائے جانے والے تحفظات پر نظر ڈال رہی ہے۔ آج کی رپورٹ اس چیز کا جائزہ لے گی کہ اس طرح کے ہتھکنڈے اسلامی تعلیمات سے کس طرح متصادم ہیں اور نوجوانوں کی جسمانی نشوونما کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ایک گزشتہ رپورٹ میں اس رویے کے نفسیاتی مضمرات کا جائزہ لیا گیا تھا۔
پشاور – پاکستان کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ طالبان نو عمر لڑکوں کو جنت میں حوروں کے ساتھ جنسی لذت کے جن وعدوں پر بھرتی کرتے ہیں وہ اسلام اور قانون شریعت کی صریح خلاف ورزی ہیں اور یہ عمل ان بچوں کے ساتھ مکمل زیادتی کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ طالبان کی جانب سے بچوں کو خودکش بم دھماکوں پر مجبور کرنے کی ہر سطح پر مذمت کی گئی ہے، مگر گروپ کی جانب سے آسانی سے متاثر ہو جانے والے نو عمر لڑکوں کو عسکریت پسند بنانے کے لیے جنسی ترغیبات کے استعمال کی حالیہ اطلاعات کہیں زیادہ قابل نفرت ہیں۔
یہ مذمت ٹورانٹو سے اردو زبان میں شائع ہونے والے اخبار لیڈر میں آنے والی ایک رپورٹ کے ردعمل میں سامنے آئی ہے۔ اس رپورٹ میں ایک نوجوان عسکریت پسند نے بتایا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کے تربیت کار فاحشہ عورتوں کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ بچوں کو اپنے ساتھ جنسی فعل کی ترغیب دیں۔ اس رپورٹ کے بعد سینٹرل ایشیا آن لائن کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ عسکریت پسند بھرتی ہونے والے بچوں کو تربیتی کیمپوں میں بعض اوقات ہم جنس پرستی کی سرگرمیوں میں شامل ہونے پر مجبور کرتے ہیں۔

جنسی زیادتی دینی اصولوں کے خلاف ہے

ادارہ استحکام شراکتی کے خیبر پختونخواہ میں علاقائی رہنما ارشد ہارون نے کہا کہ کسی بھی شکل میں جنسی زیادتی نہ صرف اسلام بلکہ کسی بھی مذہب کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام کے نام پر اس طرح کے گھناؤنے جرم کی کسی بھی مہذب معاشرے یا پتھر کے زمانے میں بھی کوئی اخلاقی حیثیت نہیں ہو گی۔ لیڈر کی رپورٹ میں 17 سالہ عبد الملک نے کہا تھا کہ بھرتی ہونے والے لڑکوں کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی تھی یا انہیں ایک تاریک کمرے میں رکھا جاتا تھا جہاں خواتین انہیں جنسی فعل کے لیے لبھاتی تھیں۔
ہارون نے کہا کہ اسلام میں واضح درس دیا گیا ہے کہ کسی خاتون کو مردوں کو پیش کرنا، چاہے وہ کم عمر ہوں یا بالغ، ایک بڑا گناہ ہے۔
ایک مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علماء اسلام فضل کے رہنما عبد الجلیل جان نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اگر مرد اور عورت شادی کے معاہدے میں نہ بندھے ہوں تو انہیں ایک دوسرے کے قریب لانا اور جسمانی تعلقات بنانے کا موقع دینا مکمل طور پر حرام اور شریعت کے خلاف ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندوں کے رویے پر عوامی ردعمل لگی لپٹی رکھے بغیر ہونا چاہیے۔ یہ عام فہم بات ہے۔ ہر باشعور شخص اس کی مذمت کرے گا۔

نشوونما کے مسائل

دریں اثناء طبی پیشہ وروں کو اس طرح کے ہتھکنڈوں کے نو عمر افراد پر پڑنے والے جذباتی اور جسمانی اثرات کے بارے میں فکر لاحق ہے۔ پشاور کنٹونمنٹ بورڈ اسپتال کے ایک ماہر طب نفسی ڈاکٹر اکبر خان نے کہا کہ چھ سال کی عمر سے آغاز بلوغت تک بچوں میں اپنی جنسی اور تولیدی صحت کو تباہ کرنے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نازک عمر میں جنسی ہیجان کو ابھارنے سے بچوں کے ہارمونی نظام کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے جس کے نتیجے میں صحت کے پیچیدہ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ دوسروں کی خوشی کے لیے اس طرح کی جنسی ہراسگی کے بچوں کی نشوونما پر تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
یہ کہتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ عسکریت پسند کیوں اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔
اکبر نے کہا کہ بچوں کا ذہن پختہ نہیں ہوتا، انہیں کوئی رہنمائی نہیں ملتی اور ان کے جسمانی نظام بھی ابھی پختہ نہیں ہوئے ہوتے۔ ان کے دماغوں میں جب جنسی تسکین کا تصور ابھرتا ہے تو انہیں خودکش بم دھماکوں سمیت تشدد کے کسی بھی اقدام پر مائل کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان کی ذہنی صحت انہیں اس طرح کی کارروائیوں کے بارے میں سوچنے کے قابل نہیں بناتی۔
ایک اور سماجی سرگرم کارکن نے کہا کہ مذہبی احکامات کی خلاف ورزی اور بچوں کی صحت کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے عسکریت پسندوں کے اس ہتھکنڈے کی ہر جگہ مذمت کی جانی چاہیے۔
ماہر نفسیات برائے اطفال فرح ظاہر نے کہا کہ جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والے بچوں کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے اور مذہب کے لبادے میں اس طرح کے گناہوں کا جواز پیش کرنا باعث شرم ہے

No comments:

Post a Comment