ابل – افغان اراکین پارلیمان اور تجزیہ کاروں کو افغانستان میں ایرانی حکومت کی بڑھتی ہوئی مداخلت پر تشویش لاحق ہے۔
کابل میں علاقائی مطالعہ مرکز کے ڈائریکٹر اور مصنف عبد الغفور لیوال نے کہا کہ ایران افغانستان میں بحران پیدا کرنے میں مصروف ہے۔
انہوں نے سینٹرل ایشیا آن لائن سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے دو اہداف ہیں۔ پہلا ہدف تو یہ ہے کہ وہ مغربی ممالک کے لیے رکاوٹیں کھڑی کرنا چاہتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ ایران نواز یونیورسٹیاں، دینی مدارس اور ذرائع ابلاغ کے ادارے قائم کر کے ملک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔
افغانستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے تشدد پر انحصار
افغان سینیٹر حاجی محمد نذیر احمد زئی نے 26 اکتوبر کو طلوع ٹی وی کے پروگرام تودی خبرے میں تہران پر الزام لگایا تھا کہ وہ اپریل کے انتخابات سے قبل افغانستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے شورش پسندوں کی امداد کر رہا ہے۔
اسی پروگرام میں شریک صوبہ فراح کے نائب گورنر محمد یونس رسولی نے احمد زئی کے خیالات کی تائید کرتے ہوئے ان شواہد کی جانب اشارہ کیا تھا کہ شورش پسند ایران سے ہتھیار حاصل کر رہے ہیں اور اس حوالے سے سرحدی علاقوں میں کچھ گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔
لیوال نے کہا کہ ایرانی حکومت اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے نرم "ہتھیاروں" کا استعمال بھی کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران نے افغان ذرائع ابلاغ میں سرمایہ کاری کی ہے اور وہ ان اداروں کی مالی مدد کرتا ہے جو اس کے اہداف کے لیے مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغان ذرائع ابلاغ کو کمزور کرنے کے علاوہ ایرانی حکومت بڑی تعداد میں ایرانی اخبارات افغانستان بھیجتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ ایرانی نظریے کو فروغ دینے اور تہران کی کوششوں کے خلاف معاندانہ رویہ رکھنے والے افغان شہریوں کو بدنام کرنے کے لیے ویب سائیٹیں بھی چلاتی ہے۔
مسعود شیر زاد نامی ایک افغان صحافی نے اس بات سے اتفاق کیا۔
انہوں نے کہا کہ ایران ذرائع ابلاغ اور ثقافتی و مذہبی سرگرمیوں کے ذریعے افغانستان کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے اور اس پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔ انہوں نے ایرانی خیالات کی حمایت کرنے والے چھ افغان ٹی وی اسٹیشنوں اور 15 سے زائد ریڈیو اسٹیشنوں کی موجودگی کو "ثقافتی یلغار" قرار دیا۔
مزاحمت کا مطالبہ
لیوال نے تجویز دی کہ افغان حکومت، اس کی وزارت اطلاعات و ثقافت اور قومی نظامت برائے سلامتی کو چاہیے کہ وہ ایرانی عزائم کو ناکام بنائیں۔
دیگر افغان تجزیہ کاروں اور حکام نے خبردار کیا ہے کہ ایرانی حکومت کی جانب سے اپنے نظریے کا مسلسل فروغ افغان سنی اکثریت اور شیعہ اقلیت کے درمیان کشیدگی پیدا کر سکتا ہے۔
افغان رکن پارلیمان نادر خان کتوازی نے کہا کہ تہران افغانستان کے ساتھ طویل المیعاد تعاون کے معاہدے کی پاسداری نہیں کر رہا ہے۔ ہم نے ایران کی جانب سے ابھی تک کوئی پیشرفت نہیں دیکھی۔
کتوازی نے تہرانی رویے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایران بیشتر وقت اتحادی فورسز کی میزبانی پر ہمیں تنقید کا نشانہ بناتا رہتا ہے۔ وہ مغربی ملکوں کے ساتھ سلامتی سے متعلق کسی قسم کے دو طرفہ معاہدوں کی بھی مخالفت کرتا ہے۔
انہوں نے جنوری میں افغان انٹیلیجنس کے سابق سربراہ امر اللہ صالح کے بی بی سی پشتو کے لیے لکھے ہوئے ایک مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران بیک وقت افغان حکومت اور افغان شیعہ اقلیت کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی کوششیں کر رہا ہے۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ افغانستان ایک خود مختار ملک ہے۔ ہم کسی بھی ملک کو افغانستان میں دخل اندازی کی اجازت نہیں دیں گے۔
No comments:
Post a Comment