انقلاب کی فصل پکنے کے دن
میرے ملک کے”عظیم“دانشور و نامور مورخوں کو ایک ”عظیم“جنوں لاحق ہے کہ کسی طرح تاریخ کو یوم توڑ موڑ کر پیش کیا جائے کہ جس سے ثابت ہو سکے کہ اس سرزمین پر رہنے والے نکمے، جاہل اور فرسودہ خیالات کے لوگ ہیں اور یہ ہمیشہ سے رہے ہیں۔
ان کے حکمران نااہل، عیاش اور بےکار تھے۔ ان کا بس نہی چلتا کہ ان کے”ارشادات“پر عمل کرتے ہوئے لوگ نسل، رنگ اور زبان کی تلواریں سونت کر میدان میں نکل آئیں اور ایک دوسرے کی لاشوں پر کھڑے ہو کر رکس کریں ۔ یہ رقص تو شروع ہے لیکن یہ سارے”عظیم“دانشور، محقق، سیاسی رہنما اور مورخ اس بات کو بھولے ہوئے ہیں کہ نفرت کے زہر میں ڈوبی ہوئی تلواریں جب میدان میں نکلتی ہیں تو پہلے عام آدمی ہی شکار ہوتے ہیں پھر یہ لاوا اس قدر پھوٹتا ہے کہ بڑے بڑوں کی گردنیں گاجر مولی کی طرح کتنے لگتی ہیں ۔ تاریخ میں ہر ایسے عظیم راہنما اور دانشور کی گردن کٹتے دیکھی گئی ہے جس نے عصبیت کا بیج بویا۔
کس قدر جھوٹ تھا جو اس قوم کے سامنے بول کر ان کو براگشتہ کیا گیا ۔ برصغیر میں مسلمانوں کے دور کو فرسودہ اور انگریز کی آمد کو رحمت تعبیر کرنے والے یہ مورخین تاریخ کی ان حقیقتوں کو کیسے جتلا سکتے ہیں کہ وہ مسلم ہندوستان جسے سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا، جس پر ابھی جمہوریت اور کارپوریٹ کلچر کے بدنما پنجے نہی گڑے تھے وہاں خوشحالی کا یہ عالم تھا کہ ایک شخص عبدالغفور کے اثاثے ایسٹ انڈیا کمپنی سے زیادہ تھے ۔ بنگال کے جگ ہت سیٹھ فیملی کے پاس بینک آف انگلینڈ سے زیادہ سرمایہ تھا ۔ 1757میں جنگ پلاسی کی لوٹ مار سے جو سرمایہ حاصل ہوا وہ پورے یورپ کی جی ڈی پی سے زیادہ تھا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فرانس، انگلینڈ اور پرتگال کی افواج سے سپاہی بھاگ کر یہاں آ کر بھرتی ہوتے تھے کہ زیادہ تنخوا حاصل کریں اور قسمت بنائیں. کیپٹن الیگزنڈر ہملٹن نے محمد تغلق کے زمانے کی روداد لکھی ہے جو مورخ یہ ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ مسلمان حکمران صرف تعمیرات کرتے تھے وہ یہ حقیقت نہی بتاتے کہ اس کیپٹن کی یاداشتوں کے مطابق صرف دلی شہر میں دس ہزار سکول اور کالج تھے اور پورے شہر میں ستر بیمارستان یعنی ہسپتال تھے ۔ بنگال میں چالیس ہزار سکول اور کالج تھے جن میں کسی میں بھی چار سو سے کم طالب علم نہ تھے ۔ ابن بطوطہ کا سفرنامہ اٹھائیں وہ بمبئی کے قریب ایک جگہ ہواز کا ذکر کرتا ہے جہاں دو سکول مردوں اور تیرہ سکول عورتوں کے تھے اور پورے علاقے میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ تھا خواہ مرد ہو یا عورت جسے قرآن حفظ نہ ہو اور وہ اس کا ترجمہ نہ جانتا ہو. دنیا کی سب سے بڑی سٹیل انڈسٹری برصغیر میں تھی اور یہ برتری 1880تک قائم رہی ۔ یہی حال جہاں رانی کے شعبے میں تھا ۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ جہاز یہاں بنتے تھے. اس برصغیر کی برآمدات ان ادوار میں کبھی بھی درآمدات سے زیادہ نہی ہوئیں. یہ خوشحالی صرف چند لوگوں تک محدود نہ تھی بلکہ لارڈ میکالے کی 1835کی تقریر کا وہ فقرہ اس کی تصدیق کرتا ہے کہ میں نے ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیا ہے لیکن مجھے کسی جگہ کوئی فقیر نظر نہی آیا اور کہیں کوئی چور دکھائی نہی دیا ۔ 1911کی مردم شماری جو انگریز نے خود کروائی، اس کے مطابق اس علاقے کی شرح خواندگی نوے فیصد سے زیادہ تھی ۔ یہ چند حقائق ہیں ورنہ ٹھٹھہ جیسے علاقے میں چار سو اعلیٰ تعلیمی اداروں سے لے کر حیدرآباد کے دنیا کے بہترین مرکز تراجم تک بہت کچھ ہے جس پر فخر کیا جا سکے ۔ لیکن میرے یہ عظیم دانشور دوست صرف یہ ثابت کرنے میں زور قلم صرف کرتے ہیں کہ ہم جاہل ، فرسودہ اور ناکارہ ماضی کے امین ہیں۔
اس کے بعد کی کہانی کوئی نہی سناتا کہ کیسے ہنستا کھیلتا ہندوستان جو دنیا بھر کی نظروں میں سونے کی چڑیا تھا، جس کی محشی خوشحالی پر لوگ رشک کرتے تھے اور کولمبس جس کو ڈھونڈنے نکلا تھا، جہاں اس تمام معاشی خوشحالی اور اقتصادی ترقی کا پھل ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی سب سمیٹتے تھے ۔ وہ مسلمان حکمرانوں کی ایک غیر رسمی تعلیم پالیسی یعنی”نان فارمل ایجوکیشن“کا نتیجہ تھی جس کے تحت ہر گاؤں میں ایک مسلمان اور ایک ہندو اتالیق مقرر تھا جو حکومت سے وظیفہ لیتا تھا ۔ جس کا کام مسلمان کو قرآن ، فارسی اور حساب اور ہندو کو گیتا ، فارسی اور حساب سکھانا تھا۔
مجھے تاریخ کے رونے نہی رونے، ہمیں کس نے اور کیوں تباہ کیا سب کو معلوم ہے لیکن دکھ اس وقت ہوتا ہے جب لوٹنے والے اور تباہ کرنے والے کو نجات دھندہ، ہیرو اور مستقبل کی امیدوں کا مرکز بنا دیا جائے ۔ مسلمانوں کی دولت اور طاقت کے لٹ جانے کا المیہ کوئی المیہ نہی، المیہ تو وہ احساس کمتری ہے جو میرے ملک کے "عظیم" دانشوروں نے اس قوم کے دماغوں میں زہر کی طرح بھر دیا ہے ۔ بار بار کے ذلت آمیز فقروں سے اسے ہلکان کر دیا ہے ۔ کیا ہو تم ذلیل و رسوا لوگو، تم میں کوئی آکسفورڈ اور کیمرج نہی، کوئی سٹورائٹ مل اور سارتر نہی، کوئی ایجادات کرنے والے ذہن نہی ۔ ریل گاڑی سے لے کر ٹیلیفون اور بجلی کے بلب سے لے کر ہوئی جہاز تک سب وہ لوگ بناتے ہیں، تم تو بس بیٹھے عیش کرتے ہو، نکمے اور ناکارہ ۔ اس سب پر ایک بات کا اضافہ کر دیا جاتا ہے اور یہ ہے کاٹ کا فقرہ اور اصل بغض باطن "مسلم امّہ کی رٹ لگاتے ہو، کدھر ہے وہ امہ" ۔ یہ چند فقرے نہی وہ خوف ہے ان سب کے دلوں میں بسا ہوا۔ ان کے آقاؤں کے دل میں بھی یہی خوف تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب 1920تک جنگ اول کے بعد مسلمانوں کے حصّے بخرے کیے گئے تو جس کے پاس تیل کی زیادہ دولت تھی اس کا ملک اتنا ہی چھوٹا بنایا گیا۔ دنیا کے دس بڑے تیل کے کنووں میں سے سات مسلمانوں کے پاس ہیں۔ اگر اس قوم کو اس طرح مرعوب کر کے تقسیم نہ کیا جاتا، اسے احساس کمتری کا شکار کر کے مارا نہ جاتا تو آج دنیا کا نقشہ مختلف ہوتا ۔ ایک صدی گزر چکی ۔ اب آزمائشوں اور مصیبتوں کے زمانے ختم ہونے کو ہیں ۔ انقلاب کی فصل پک چکی ہے، جب فصل پک جائے تو کوے اور ٹڈی دل فصل تباہ کرنے آتے ہیں، ایسے میں صرف چند کوے لٹکانے ہوتے ہیں، فصل محفوظ ہو جاتی ہے۔
اوریا مقبول جان
No comments:
Post a Comment