’چاچا چَوَ ل‘
میرے محلے میں ایک صاحب رہتے ہیں جن کا نام کثرتِ رائے سے ’’چاچا چَوَ ل‘‘ منظور ہوچکا ہے۔چاچے کا طریقہ واردات بڑا نرالا ہے، عموماً لوگ قرض مانگنے والوں سے کنی کتراتے ہیں ،لیکن چاچا ،قرض مانگنے والوں کی تلاش میں رہتاہے۔اس کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر شخص اس سے قر ض مانگے۔ابھی تک محلے کے تین سو سے زائداس سے قرض لے چکے ہیں۔چاچے کی ایک ’’مکروہ‘‘ خصوصیت یہ بھی ہے کہ چاچا عام حالات میں قرض واپس نہیں لیتا۔ اگر کوئی اسے قرض واپس کرنے کی کوشش بھی کرے تو چاچے کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ ایسا نہ ہونے پائے۔لیکن چاچا بڑی شے ہے، جس کو قرض دیتا ہے، پھر ساری زندگی اس سے کام نکلواتا رہتاہے اور قرض کا تقاضا ہمیشہ اُس وقت کرتا ہے جب اسے پورا یقین ہوجائے کہ اب مقروض بالکل بھی قرض چکانے کی پوزیشن میں نہیں۔ایسے حالات میں چاچے کا رویہ خودبخود سخت ہوجاتاہے، وہ مقروض کو انتہائی خوفناک طریقے سے گھورتاہے، باربار اس کے گھر کی بیل بجا کر پیغام بھجواتا ہے کہ ’’مجھ سے فوراً ملو۔‘‘ اس کے موبائل پر Missed کالیں مارتاہے اور کئی دفعہ تو اس کے دروازے پر کاغذ بھی چپکا آتا ہے جس پر لکھا ہوتاہے کہ ’’آج شام 5 بجے تک ہر حال میں مجھے پیسے مل جانے چاہئیں۔‘‘مقروض بیچارہ اس خطرناک صورتحال سے گھبرا کرچاچے کی منت سماجت کرتاہے، تاہم تھوڑی سی بحث و تمہید کے بعد چاچا اسے خطرناک نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے مزید مہلت دینے پر آمادہ ہوجاتاہے۔
چاچے کا قرض پانچ ہزار سے زیادہ کا نہیں ہوتا، وہ عموماً ریڑھی والوں، چھوٹی دوکانوں والوں اور قلفیاں بیچنے والوں کو قرض دیتاہے اور پھر ان سے مفت چیزیں کھاتاہے۔وہ بیچارے اصل رقم سے زیادہ کی چیزیں کھِلا کر بھی چاچے کے مقروض ہی رہتے ہیں لیکن زبان کھولنے کی جرات نہیں کر سکتے کہ چاچا اُسی وقت رقم کا تقاضا کر سکتاہے۔چاچے کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر اُس بندے کو قرض دے جس سے وہ اچھے خاصے کام نکلوا سکتاہے، ایسے میں کوئی بندہ قرض نہ بھی مانگے تو چاچا زبردستی اسے قرض دے کر اپنا مقروض بنا لیتاہے، میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔میں لارنس گارڈن میں ایک دوست کے انتظار میں اکیلا ہی واک کر رہا تھا کہ اچانک چاچے نے مجھے گھیر لیا۔
’’ننگے پیر چل رہے ہو۔۔۔جوتی کیوں نہیں خرید لیتے؟‘‘
میں نے منہ بنایا۔۔۔’’چاچا میرے پاس جوتی موجود ہے، میں ویسے ہی گھاس پر ننگے پیر چلنا پسند کرتاہوں‘‘۔
’’اچھا بہانہ ہے۔۔۔‘‘چاچے نے گہرا سانس لیا۔۔۔’’سفید پوش لوگ مرجاتے ہیں اپنی ضرورت نہیں بتاتے۔ بھئی کوئی پیسے ویسے چاہئے ہوں تو بلاجھجک بتانا‘‘۔
’’بڑی مہربانی چاچا۔۔۔فی الحال تو اللہ کا شکر ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’لیکن مجھے لگتا ہے تم کچھ چھپا رہے ہو‘‘۔۔۔چاچے نے مشفقانہ انداز میں کہا۔میں چاچے کی بات پر کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ چاچے نے میری بات کاٹی اور دوبارہ بولا’’بیٹا! انسان کی ضرورت کا کچھ پتا نہیں ہوتا، چلو ضرورت بے شک نہ بتاؤ، پیسے تو لے لو۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے چاچے نے اپنا دائیاں ہاتھ واسکٹ کی جیب میں ڈال دیا۔
میں نے جلدی سے کہا۔۔۔’’چاچا میں سچ کہہ رہا ہوں کہ مجھے۔۔۔‘‘ لیکن میری بات پوری ہونے سے پہلے ہی چاچے نے پانچ ہزار کاکڑکڑاتا نوٹ میری مٹھی میں دبا دیا اوراپنی نم آلود آنکھوں کو رومال سے صاف کرتے ہوئے بولا۔۔۔’’خدا برا وقت کسی پر نہ لائے، انسان خود تو بھوکا سو سکتاہے لیکن بیوی بچوں کی بھوک نہیں دیکھی جاتی۔بس اب انکار مت کرنا ، مجھے پتا ہے تمہاری غیرت گوارہ نہیں کر رہی ہوگی لیکن بیٹا! مجھ سے کیسی شرم؟‘‘ یہ کہہ کر چاچے نے اطمینان سے اپنی واسکٹ درست کی اور یہ جا وہ جا! آج اس بات کو ایک سال ہوچکا ہے۔چاچا روزانہ میرے موبائل سے چھ سات کالیں کرتاہے، مہمان آجائیں تو ان کے قیام و طعام کا بندوبست بھی میرے گھر پر ہوتاہے، چھ سات مرتبہ مجھ سے ہمیشہ کے لیے کپڑے مانگ کے لے جاچکا ہے، اس کے بچوں کو سکول سے آنے میں دیر ہوجائے تو ان کو لانے کا فریضہ بھی مجھے ہی سرانجام دینا پڑتاہے، شام کا کھانا اور چائے اکثر چاچا میرے ساتھ ہی پیتا ہے، کبھی کبھی چھوٹی موٹی ضرورتوں کے لیے سو دو سو ادھار بھی لے جاتاہے جو کبھی واپس نہیں ہوتے،کیبل والے کو بتائے بغیر اس نے اپنے گھر کی کیبل کٹوا کرنے میری کیبل میں جوائنٹ لگوا لیا ہے جس کی وجہ سے اس کے گھر کی کیبل بالکل صاف آتی ہے اور میرے ہاں صرف لہریں رقص کرتی ہیں، بیوی بچوں کو سیر کرانے کے لیے وہ میری گاڑی ہر دوسرے دن لے جاتاہے۔۔۔اور تو اور اس نے یہ ذمہ داری بھی مجھ پر ڈال دی ہے کہ اس کے میٹرک فیل بیٹے کو اچھی سی نوکری بھی میں دلواؤں۔
خدا کی قسم !!!۔۔۔میں ہر طرح سے چاچے کا قرض لوٹانے کی پوزیشن میں ہوں، کئی بارکوشش کرکے زبردستی چاچے کی جیب میں پانچ ہزار کا نوٹ ڈال چکا ہوں لیکن چاچا شور مچا دیتاہے، چیختا ہے، چلاتاہے ، واسطے دیتاہے اور مجھے مجبوراً نوٹ واپس جیب میں رکھنا پڑ جاتاہے۔پورے محلے کو پتا چل چکا ہے کہ میں چاچے کا ’’قرضئی‘‘ ہوں۔میرے ساتھ والا ہمسایہ’’حامد‘‘ بھی چاچے کا قرضئی ہے اور اسی بناء پر پورے محلے میں’’حامد قرضئی‘‘ مشہور ہے۔ ہم دونوں چاچے کو سخت بات کہنے سے گھبراتے ہیں، میں نے کئی بار سوچا کہ میں چاچے کے ساتھ ذرا غصے سے پیش آؤں لیکن پھر سوچتا ہوں محلے والا کیا سوچیں گے کہ جس سے قرض لیا،اُسی کو آنکھیں دکھاتاہے۔اب تو حد ہوچکی ہے، چاچے نے اپنے بیٹے کو کمپیوٹر سیکھنے کے لیے میرے پاس بھیجنا شروع کر دیا ہے۔میں نے بارہا چاچے کو سمجھانے کی کوشش کی کہ کمپیوٹر میرے ذاتی استعمال کے لیے ہے، لیکن چاچا ہر دفعہ مسکرا کر کہتاہے۔۔۔’’بیٹا! میں نے بھی پانچ ہزار ذاتی استعمال کے لیے رکھے تھے ،لیکن میرا ایمان ہے کہ محلے داروں کے بارے میں ذاتیات سے بلند ہوکر سوچنا چاہیے‘‘۔ یہ جواب سن کر میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ چاچے کے بیٹے کو کمپیوٹر سکھانا شروع کر دوں حالانکہ اُس نے کمپیوٹر خاک سیکھنا ہے، وہ آدھے سے زیادہ وقت تاش والی گیمیں کھیلنے میں لگا رہتاہے۔میں کچھ کہنے کے باوجود بھی اس کو سخت الفاظ نہیں کہہ سکتا ، آخرمیں اس کے باپ کا قرضئی ہوں۔چاچا میرے حواس پر حاوی ہوتا جارہا ہے، مجھے لگتا ہے کہ عنقریب میں ہر کام اس کی مرضی سے کیا کروں گا۔چاچا نہ ہوا ’’آئی ایم ایف‘‘ ہوگیا
No comments:
Post a Comment