ہم آپکو ایم بی بی ایس ائیرپورٹ پر خوش آمدید کہتے ہیں، اس وقت اسلام آباد کا درجہ حرارت 7 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ مسافروں سے درخواست ہے کہ جہاز جب تک پوری طرح رک نہ جائے اور حفاظتی بتیاں بجھا نہ دی جائیں اس وقت تک نشستوں پر بیٹھے رہیں، بالائی خانے مت کھولیں سامان مسافروں پہ گرنے کا خدشہ ہے۔ بات خوش آمدید سے آگے سنی کوئی نی میں نے (اور یقیناً باقیوں نے بھی) کیونکہ ہم سب کو رٹا وا ہے کہ اناؤنس منٹ میں ایسا ہی کچھ بارکا جاتا ہے۔ پتہ نہیں ایسا کیوں ہوتا ہے کہ بندہ اپنے ملک کی سرحدوں میں آتے ہی کانفڈنٹ کانفڈنٹ فیل کرتا ہے۔ ائیرہوسٹسوں کے ساتھ چھیڑ پنگے کرتے پاکستانیوں کو دیکھ کر میرا خیال ہے کہ کچھ لوگوں کو یہ فیلنگ جہاز میں بیٹھتے ہی آ جاتی ہے۔
بہرحال جہاز مکمل طور پر رکنے سے پہلے ہی لوگ اپنے دستی سامان کے ساتھ جہاز سے نکلنے کو تیار کھڑے تھے کہ اتنے میں پچھلی سیٹ سے آواز آئی ”ہاؤ ڈسگسٹنگ“۔ دیکھا تو ہائے ہائے ہائے۔ ایڈے سونے بوتھے تے ایڈی پیڑی پیڑی شکلاں بناندی مٹیار تے نظر پئی کہ کچھ نہ ای پچھ، بس کافی کی خوشبو کی طرح مدہوش کر دینے والی بچی۔ یہ وہی پارٹی تھی جو ہمارے ساتھ بیٹھتے بیٹھتے پیچھے بیٹھ گئی تھی اور ہمارے حصے میں آئے تھے وہ صاحب جو شائد تارے میرے کے تیل کی مالش کر کے آئے ہیں اور جب پچھلی سیٹ سے بار بار اس تارے میرے کی مہک سے چھٹکارے کے لئے پرفیوم سپرے کیا جاتا تھا تو ایویں ان صاحب سے کراہت محسوس ہوتی تھی جنکی وجہ سے حُسن انساں پر تحقیق سے ہم محروم رہ گئے تھے۔ تو یارا جی ایک بندہ جو سال دو سال بعد مزدوری کرتا رہا اور جسکو گلوبل ہیرا منڈی میں رہتے ہوئے بھی پونڈی کا موقع نہ ملا ہو، اسکو کوئی بالائی خانوں سے سامان نکالنے کے عمل کے دوران (منی ٹی شرٹ کی نا اہلی کی وجہ سے ہی سہی) تُنی شُنی نظر آ جائے تو اسکا کیا قصور؟ وہ کونسا ولی اللہ ڈپلومہ ہولڈر ہے کہ گھورے گا نہیں۔ اور جب کوئی ڈُونگا گلا پہنے سامنے بیٹھی ہو گی تو کس کافر کو جلدی ہو گی جہاز سے نکلنے کی؟ اب ”ہاؤ ڈسگسٹنگ“ کہے یا ”ثنا بچ“ کسی کو کیا سمجھ آئے گی اور ہمیں کیا موت پڑی ہے کہ ایسے موقعے پہ ایسی باتیں سمجھنے بیٹھیں؟
تارے میرے انکل کے نکلنے کے بعد جو ساتھ انکل بیٹھے تھے کہنے لگے ”اوور سیز پاکستانیوں کے بچوں کی تربیت ایسی ہی ہوتی ہے۔ جس معاشرے میں رہتے ہیں اسکے رنگ میں تو رنگنا پڑتا ہی ہے، ہمارا وطن اچھا ہے۔ بیس سال سے ہوں باہر لیکن بچوں کو پاکستان میں ہی رکھا ہوا ہے۔ ایسا ماحول باہر نہیں ملتا“۔ بات تو انکل کی ایسی کچھ غلط بھی نہیں تھی لیکن چونکہ وقت مختصر تھا اور میرے سامنے کرنے کو اور بھی ”ضروری کام“ تھا ورنہ انکل سے مزید گیان ضرور حاصل کرتا۔
ابھی ہم درد دل سے ٹمٹتے کنوئیر بیلٹ کے ساتھ سامنے کھڑی مورتی سے آنکھوں کی پیاس بجھا رہے تھے کہ لگا ہاون دستے سے کسی نے ہماری بائیں ٹانگ کے دو ٹوٹے کر دئیے ہیں۔ پار کھڑی پارٹی پہ نظریں جمائے رکھے ہی باآواز بلند چیخ ماری ”ہاؤ ڈسگسٹنگ“۔ (اس میں میرا کوئی قصور نہیں میں سوچ ہی پوسٹ کا ٹائٹل رہا تھا) اور غلطی کا احساس ہونے پر پلٹ کر دیکھا تو ریگل مارکہ چولہا ہمارے بعد ایک اور کی چولہیں ہلا کر رڑتا جا رہا تھا۔
بلیس شادی ہال کی ریسپشن پہ کھڑی مہمان لڑکی کو دیکھا تو پلکیں جھپکانا بھول گیا۔ دیکھنے والی چیز تھی قسم سے اور اسکی وجہ اسکی بڑی زبردست قسم کی ڈریسنگ تھی۔ ایک دم جہازی انکل کی بات یاد آئی اور میں بے وجہ ہاؤ ڈسگسٹنگ اور اس بچی کا موازنہ کرنے لگا۔ یہ لمبی سکرٹ یا گھاگرا یا لہنگا، واللہ عالم کیا چیز تھی لیکن عربی برقعوں کی طرح کافی سارا زمین پر پڑا ہوا تھا کہ پاؤں بھی کوئی چاہے تو نہ دیکھ سکے۔ تُنی کے تین انچ نیچے سے لے کر سر تک صرف ایک اور کپڑا تھا اور وہ ہو گی چار پانچ انچ کی ایک پٹی جو بغلوں کے نیچے سے لا کر سینے کے گرد لپیٹ دی گئی تھی۔ او کے میک اٹ سکس انچز بٹ ناٹ مور دین دیٹ۔ گو عمر کم تھی لیکن اعضا کی نشونما بتاتی تھی کہ چیز دیکھنے والی بن چکی ہے اور مذکورہ پارٹی کو اس حقیقت کا اچھی طرح ادراک بھی ہے۔ پہلی دفعہ دیکھنے کے بعد میں نے اور سکھ یاتری نے ایک دوسرے کی طرف سوالیہ و حیران کن نظروں سے دیکھا اور دونوں نے ابرو اچکا کر مہر تجسس ثبت کی۔ ویسے تو میں اتنا بدنام ہوں کہ لوگوں کے حساب سے مجھے ایکسرے کرنے کے لئے ایک ہی نظر کافی ہوتی ہے لیکن میں نے بھی بلاگیانہ ذمہ داریوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر تفصیلی ایم آر آئی کیا۔
واپسی پر پوائنٹ کی چھت پر بیٹھ کر جہاں ہم کورَس میں ”چھوڑ آئے ہم وہ رنڈیاں“ گایا کرتے تھے وہیں ہر قسم کے معاملات بھی ڈسکستے تھے۔ اس وقت کی شہرہ آفاق دیسی بابے کی سٹوریوں کی آتھنٹسٹی پر بحث کے دوران سرکاری سانڈ نے جو دعوے قسم کا آرگومنٹ پیشا وہ آج تک میری دماغ ٹائپ چیز میں محفوظ ہے۔”تم کیا سمجھتے ہو یہ سب سٹوریاں جھوٹی ہوتی ہیں؟ پاکستانی کوئی شریف قوم ہیں؟ اوئے کنجر ہیں سارے۔ یہ لوگ ہندوؤں سے بڑھ کر ہندو اور انگریزوں سے بڑھ کر انگریز ہونا چاہتے ہیں، بلکہ ہیں۔ان کو موقع ملے تو یہ ان سب کو پیچھے چھوڑ دیں۔ تم اس ملک کا ماحول تھوڑا سا اور لبرل کر دو تمہیں پان کی دکان سے ڈالز اور ڈلڈو ملنے لگیں گے اور کریانے کی دکان سے بکنیاں“۔ ساتھ ہی اس نے حدود بل پاس ہونے سے اگلے دن دامن کوہ والے اس جوڑے کا ذکر کیا جنکی حرکات اس بل سے پہلے یقینا ”قابل اعتراض“ کہلائے جانے کی وجہ سے حدود کیس میں اندر ہونے کا باعث بنتیں۔
بس وہ انکل مجھے دوبارہ کبھی مل جائیں تو میں ان کو ”فوجی فوج میں اور پڑوسی موج میں“ والا لطیفہ ضرور سناؤں اور ساتھ ڈی اینوی ٹیسٹ بھی رکمینڈوں۔ بحیثیت مجموعی ہم ایک منافق قوم ہیں، ہمارے کرتوت ایک دم کنجروں والے لیکن خطبوں کی ماسٹر۔ پاکستان میں پلنے والی نئی نسل کو دیکھتا ہوں اور اوورسیز پاکستانیوں کے بچوں کو دیکھتا ہوں تو زمین آسمان کا فرق ہے۔ باہر رہنے والوں کی اکثریت نے باہر بھی اپنی اولاد کو پاکستان میں بسنے والوں سے زیادہ بچا کر رکھا ہوا ہے لیکن پاکستان میں بسنے والے یہی سمجھتے ہیں کہ ساری شرم، حیا اور لاج اسی دیس میں رکھی ہے۔ اِدھر باؤنڈری کراس کی اور اُدھر اولاد بے حیا ہو گئی لیکن اپنی منجی تھلے یہ قوم ڈانگ نی پھیرتی۔ اخلاقیات کا یہ عالم ہے کہ اسکی بجلی ، پانی، گیس، روٹی بلکہ تشریف بھی بند کر دو تو اسکو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا لیکن اسکا سٹار پلس یا عشق ممنوع بند کر دو تو اسکے چوتڑوں پہ لاکڑا کاکڑا نکل آتا ہے۔
بہرحال جہاز مکمل طور پر رکنے سے پہلے ہی لوگ اپنے دستی سامان کے ساتھ جہاز سے نکلنے کو تیار کھڑے تھے کہ اتنے میں پچھلی سیٹ سے آواز آئی ”ہاؤ ڈسگسٹنگ“۔ دیکھا تو ہائے ہائے ہائے۔ ایڈے سونے بوتھے تے ایڈی پیڑی پیڑی شکلاں بناندی مٹیار تے نظر پئی کہ کچھ نہ ای پچھ، بس کافی کی خوشبو کی طرح مدہوش کر دینے والی بچی۔ یہ وہی پارٹی تھی جو ہمارے ساتھ بیٹھتے بیٹھتے پیچھے بیٹھ گئی تھی اور ہمارے حصے میں آئے تھے وہ صاحب جو شائد تارے میرے کے تیل کی مالش کر کے آئے ہیں اور جب پچھلی سیٹ سے بار بار اس تارے میرے کی مہک سے چھٹکارے کے لئے پرفیوم سپرے کیا جاتا تھا تو ایویں ان صاحب سے کراہت محسوس ہوتی تھی جنکی وجہ سے حُسن انساں پر تحقیق سے ہم محروم رہ گئے تھے۔ تو یارا جی ایک بندہ جو سال دو سال بعد مزدوری کرتا رہا اور جسکو گلوبل ہیرا منڈی میں رہتے ہوئے بھی پونڈی کا موقع نہ ملا ہو، اسکو کوئی بالائی خانوں سے سامان نکالنے کے عمل کے دوران (منی ٹی شرٹ کی نا اہلی کی وجہ سے ہی سہی) تُنی شُنی نظر آ جائے تو اسکا کیا قصور؟ وہ کونسا ولی اللہ ڈپلومہ ہولڈر ہے کہ گھورے گا نہیں۔ اور جب کوئی ڈُونگا گلا پہنے سامنے بیٹھی ہو گی تو کس کافر کو جلدی ہو گی جہاز سے نکلنے کی؟ اب ”ہاؤ ڈسگسٹنگ“ کہے یا ”ثنا بچ“ کسی کو کیا سمجھ آئے گی اور ہمیں کیا موت پڑی ہے کہ ایسے موقعے پہ ایسی باتیں سمجھنے بیٹھیں؟
تارے میرے انکل کے نکلنے کے بعد جو ساتھ انکل بیٹھے تھے کہنے لگے ”اوور سیز پاکستانیوں کے بچوں کی تربیت ایسی ہی ہوتی ہے۔ جس معاشرے میں رہتے ہیں اسکے رنگ میں تو رنگنا پڑتا ہی ہے، ہمارا وطن اچھا ہے۔ بیس سال سے ہوں باہر لیکن بچوں کو پاکستان میں ہی رکھا ہوا ہے۔ ایسا ماحول باہر نہیں ملتا“۔ بات تو انکل کی ایسی کچھ غلط بھی نہیں تھی لیکن چونکہ وقت مختصر تھا اور میرے سامنے کرنے کو اور بھی ”ضروری کام“ تھا ورنہ انکل سے مزید گیان ضرور حاصل کرتا۔
ابھی ہم درد دل سے ٹمٹتے کنوئیر بیلٹ کے ساتھ سامنے کھڑی مورتی سے آنکھوں کی پیاس بجھا رہے تھے کہ لگا ہاون دستے سے کسی نے ہماری بائیں ٹانگ کے دو ٹوٹے کر دئیے ہیں۔ پار کھڑی پارٹی پہ نظریں جمائے رکھے ہی باآواز بلند چیخ ماری ”ہاؤ ڈسگسٹنگ“۔ (اس میں میرا کوئی قصور نہیں میں سوچ ہی پوسٹ کا ٹائٹل رہا تھا) اور غلطی کا احساس ہونے پر پلٹ کر دیکھا تو ریگل مارکہ چولہا ہمارے بعد ایک اور کی چولہیں ہلا کر رڑتا جا رہا تھا۔
بلیس شادی ہال کی ریسپشن پہ کھڑی مہمان لڑکی کو دیکھا تو پلکیں جھپکانا بھول گیا۔ دیکھنے والی چیز تھی قسم سے اور اسکی وجہ اسکی بڑی زبردست قسم کی ڈریسنگ تھی۔ ایک دم جہازی انکل کی بات یاد آئی اور میں بے وجہ ہاؤ ڈسگسٹنگ اور اس بچی کا موازنہ کرنے لگا۔ یہ لمبی سکرٹ یا گھاگرا یا لہنگا، واللہ عالم کیا چیز تھی لیکن عربی برقعوں کی طرح کافی سارا زمین پر پڑا ہوا تھا کہ پاؤں بھی کوئی چاہے تو نہ دیکھ سکے۔ تُنی کے تین انچ نیچے سے لے کر سر تک صرف ایک اور کپڑا تھا اور وہ ہو گی چار پانچ انچ کی ایک پٹی جو بغلوں کے نیچے سے لا کر سینے کے گرد لپیٹ دی گئی تھی۔ او کے میک اٹ سکس انچز بٹ ناٹ مور دین دیٹ۔ گو عمر کم تھی لیکن اعضا کی نشونما بتاتی تھی کہ چیز دیکھنے والی بن چکی ہے اور مذکورہ پارٹی کو اس حقیقت کا اچھی طرح ادراک بھی ہے۔ پہلی دفعہ دیکھنے کے بعد میں نے اور سکھ یاتری نے ایک دوسرے کی طرف سوالیہ و حیران کن نظروں سے دیکھا اور دونوں نے ابرو اچکا کر مہر تجسس ثبت کی۔ ویسے تو میں اتنا بدنام ہوں کہ لوگوں کے حساب سے مجھے ایکسرے کرنے کے لئے ایک ہی نظر کافی ہوتی ہے لیکن میں نے بھی بلاگیانہ ذمہ داریوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر تفصیلی ایم آر آئی کیا۔
واپسی پر پوائنٹ کی چھت پر بیٹھ کر جہاں ہم کورَس میں ”چھوڑ آئے ہم وہ رنڈیاں“ گایا کرتے تھے وہیں ہر قسم کے معاملات بھی ڈسکستے تھے۔ اس وقت کی شہرہ آفاق دیسی بابے کی سٹوریوں کی آتھنٹسٹی پر بحث کے دوران سرکاری سانڈ نے جو دعوے قسم کا آرگومنٹ پیشا وہ آج تک میری دماغ ٹائپ چیز میں محفوظ ہے۔”تم کیا سمجھتے ہو یہ سب سٹوریاں جھوٹی ہوتی ہیں؟ پاکستانی کوئی شریف قوم ہیں؟ اوئے کنجر ہیں سارے۔ یہ لوگ ہندوؤں سے بڑھ کر ہندو اور انگریزوں سے بڑھ کر انگریز ہونا چاہتے ہیں، بلکہ ہیں۔ان کو موقع ملے تو یہ ان سب کو پیچھے چھوڑ دیں۔ تم اس ملک کا ماحول تھوڑا سا اور لبرل کر دو تمہیں پان کی دکان سے ڈالز اور ڈلڈو ملنے لگیں گے اور کریانے کی دکان سے بکنیاں“۔ ساتھ ہی اس نے حدود بل پاس ہونے سے اگلے دن دامن کوہ والے اس جوڑے کا ذکر کیا جنکی حرکات اس بل سے پہلے یقینا ”قابل اعتراض“ کہلائے جانے کی وجہ سے حدود کیس میں اندر ہونے کا باعث بنتیں۔
بس وہ انکل مجھے دوبارہ کبھی مل جائیں تو میں ان کو ”فوجی فوج میں اور پڑوسی موج میں“ والا لطیفہ ضرور سناؤں اور ساتھ ڈی اینوی ٹیسٹ بھی رکمینڈوں۔ بحیثیت مجموعی ہم ایک منافق قوم ہیں، ہمارے کرتوت ایک دم کنجروں والے لیکن خطبوں کی ماسٹر۔ پاکستان میں پلنے والی نئی نسل کو دیکھتا ہوں اور اوورسیز پاکستانیوں کے بچوں کو دیکھتا ہوں تو زمین آسمان کا فرق ہے۔ باہر رہنے والوں کی اکثریت نے باہر بھی اپنی اولاد کو پاکستان میں بسنے والوں سے زیادہ بچا کر رکھا ہوا ہے لیکن پاکستان میں بسنے والے یہی سمجھتے ہیں کہ ساری شرم، حیا اور لاج اسی دیس میں رکھی ہے۔ اِدھر باؤنڈری کراس کی اور اُدھر اولاد بے حیا ہو گئی لیکن اپنی منجی تھلے یہ قوم ڈانگ نی پھیرتی۔ اخلاقیات کا یہ عالم ہے کہ اسکی بجلی ، پانی، گیس، روٹی بلکہ تشریف بھی بند کر دو تو اسکو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا لیکن اسکا سٹار پلس یا عشق ممنوع بند کر دو تو اسکے چوتڑوں پہ لاکڑا کاکڑا نکل آتا ہے۔
ایک تو مجھے ویسے ہی بڑی تپ تھی دوسرے کاکے نے بھی مجبور کر دیا کی بوٹ اٹھانے پر۔ اگلی ایک دو پوسٹیں اوور سیز پاکستانیوں پہ، حساب برابر رکھنا چاہیے نا
No comments:
Post a Comment