November 10, 2013

اے کنجری پیسے تو دے دے

بتانے والی نے کچھ یوں بتایا:
”میں گاڑی سے اتر کر گھر کی طرف جا رہی تھی کہ ایک بھکارن جس کے ساتھ ایک چھوٹی سی بچی بھی تھی اور حالت سے ہی پتا چل رہا تھا کہ مستحق نہیں، نے سوال کیا۔ میں ان سنی کر کے جاتی رہی لیکن اس عورت کے ساتھ جو بچی تھی وہ میرے ساتھ ساتھ چلنے لگی اور لگاتار آٹو ریوائنڈ کیسٹ لگا کر مانگتی رہی۔ باجی اللہ کے نام پہ دے دو، فطرانہ دے دو اور پتا نی کیا کیا لیکن میں نے دھیان نہیں دیا اور اسکو اتنا اگنور کیا کہ اسکی طرف دوبارہ دیکھا تک نہیں۔ میں گھر کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو ئی تو پیچھے سے بچی کی آواز آئی ’اے کنجری پیسے تو دے دے‘ اور بے اختیار میری ہنسی نکل گئی“۔
یہ سن کر میں نے پوچھا کہ پھر پیسے دئیے؟ جواب ملا “پہلے نہیں دیے تو اس بات کے بعد کیسے ممکن تھا؟“
دوبارہ دیکھ تو لیا ہی ہو گا؟
نہیں بالکل بھی نہیں لیکن ہنسی تھی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
تو جی کچھ ایسا ہی حال ہے ہمارے حکمرانوں اور عالمی برادری کا۔ ملاحظہ ہو حالات و واقعات اور پھر اس کے بعد بیانات۔ سیلاب آیا تو صدر صاحب غیر ملکی دورے پر باہر۔ وزیر اعظم صاحب مصروف۔ بے نظیر پارٹ ٹو نامی ماڈل صاحبہ ہفتے بعد سیلابی بیک گراؤنڈ کے ساتھ تصویر بنوا کر اخباروں میں چھپوا دیتی ہیں اور وزیر اعظم صاحب دو ہفتے بعد ہیلی کاپٹری معائنہ کر کے اربوں ڈالر نقصان کا تخمینہ لگاتے ہیں اور کشکول لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پھر ساری کابینہ اور حکمران ”اللہ کے نام پہ دے دے بابا“ شروع ہو جاتے ہیں۔
صدر صاحب بار بار کہتے ہیں عالمی برادری مدد کرے میں وعدہ کرتا ہوں ایک ایک پیسہ متاثرین پر خرچ ہو گا (لُک ایٹ دا گارنٹی)۔ ڈونرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اصل صدر اور وزیر اعظم صاحب کہتے ہیں دنیا ہمارا پچاس ارب ڈالر قرضہ معاف کرے۔ وزیر اعظم صاحب کا بیان آتا ہے کہ عالمی برادری این جی اوز کو امداد دے رہی ہے پھر ان فنڈز کے خرچ کا سوال حکومت سے نہ کیا جائے۔ پھر کہتے ہیں این جی اوز آدھے فنڈز تنخواہوں کی مد میں خرچ کر رہی ہیں یہ متاثرین کی مدد کیا کریں گے؟ ابھی بیان آئے چار دن ہی ہوئے تھے کہ وکی صاحب کا پیمپر لیک کر گیا لیکن غالب گمان یہی ہے کہ اب اسی پیمپر کے لیکس سے پھیلنے والے گند کو بنیاد بنا کر تھوڑے دن میں بیان آنے شروع ہو جائیں گے ”اے کنجری پیسے تو دے دے“ اور یہ تو وہ کنجری ہے جو پہلے سے ہی ہم پر بے اختیار ہنس رہی ہے۔

No comments:

Post a Comment