November 10, 2013

طالبان کی جانب سے نوعمر بچوں کو بھرتی کرنے کے لئے اغوا اور جنت کے وعدوں کا سہارا نفسیاتی معالج کا کہنا ہے کہ نوعمر بچوں کے ذہنی خیالات تبدیل کرنا آسان ہوتا ہے


پشاور – عسکریت پسند مجھے منتخب کر کے ایک جگہ لے گئے جہاں کئی درجن نوعمر بچوں کے ہمراہ مجھے خودکش بمباروں کی تربیت کی وڈیو فلمیں دکھائی گئیں جن سے میں کافی متاثر ہوا۔ یہ بات ذکاء اللہ خان نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو ٹیلی فون پر بتائی۔
ذکاء اللہ خان ان 1 سو 40 نوعمر عسکریت پسندوں میں شامل ہے جنہوں نے مالاکنڈ میں فوج کے زیر اہتمام صباؤن اسکول سے حال ہی میں بنیاد پرستی کے خاتمے کا پروگرام مکمل کیا ہے۔
اس نے بتایا کہ شروع میں جب طالبان نے مجھے اغوا کیا تو میں کافی زیادہ اداس تھا تاہم بعد میں یہ جان کر میں مطمئن ہو گیا کہ خودکش بم حملہ جنت جانے کا آسان ترین راستہ ہے۔
آج صباؤن میں چھ ماہ کا تربیتی پروگرام مکمل کرنے کے بعد ذکاء اللہ خان نے ملازمت کے لئے درکار ہنر سیکھے ہیں اور وہ معمول کی زندگی کی جانب لوٹ رہا ہے۔
بیشتر بمباروں کی عمریں 12 سے 18 سال کے درمیان ہیں
عسکریت پسندی کا شکار مالاکنڈ ڈویژن میں نفسیاتی مسائل کے ایک ممتاز ماہر اور نفسیاتی معالج ڈاکٹر میاں افتخار حسین کا کہنا ہے کہ بیشتر خودکش بمباروں کی عمریں 12 سے 18 سال کے درمیان ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بڑی عمر کے افراد کی نسبت نوعمر بچوں کے ذہنی خیالات تبدیل کرنا آسان ہے۔ تازہ ذہن خالی ہوتے ہیں اور ان میں اپنی مرضی کا مواد بھرا جا سکتا ہے۔
ذہنی خیالات تبدیل کرنے میں آسانی کے علاوہ بچوں پر کم شبہ کیا جاتا ہے۔ 10 فروری کو اسکول یونیفارم میں ملبوس ایک نوعمر خودکش بمبار نے مردان میں فوج کے تربیتی میدان پر حملہ کیا جس میں 20 زیر تربیت اہلکار جاں بحق ہو گئے۔
وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں سلامتی کے امور کے سابق سیکرٹری ریٹائرڈ بریگیڈیر محمود شاہ نے بتایا کہ خودکش بمبار بچے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں میں انتہائی ناگزیر اور مؤثر ہتھیار ہیں جن کی مدد سے وہ کسی بھی منتخب جگہ کو ہدف بنا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کو اغوا، قتل اور افراد کو گرفتار کرنے کی بھی تربیت دی جاتی ہے۔ غربت اور تعلیم کا فقدان وہ اہم کمزوریاں ہیں جنہیں طالبان نوعمر بچوں کو بہلا پھسلا کر اپنے ساتھ شامل کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور نوعمر بچوں کو تربیت دینے کے لئے طالبان بنیادی طور پر اغوا کا ہتھکنڈہ استعمال کرتے ہیں۔
خیبر پختونخواہ اور فاٹا میں متوقع خودکش بمباروں کی بحالی کے کام میں شامل ڈاکٹر افتخار کا کہنا ہے کہ غریب اور ناخواندہ بچے نرم اہداف ہوتے ہیں۔
انتہاپسند مدارس میں ذہنی خیالات تبدیل کرنے کا عمل
بعض بچوں کو گلیوں سے اغوا کیا جاتا ہے جبکہ دیگر ان مدارس سے آتے ہیں جو انتہاپسندوں یا قرآن کا کمزور علم رکھنے والے ائمہ کے زیر اہتمام چل رہے ہوتے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ طلباء کے سامنے اسلام کی غلط یا قصداً توڑ مروڑ کر پیش کی جانے والی تعلیمات رکھی جاتی ہیں اور اس کے باعث وہ عسکریت پسندوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن جاتے ہیں۔
باجوڑ ایجنسی کی تحصیل مہمند کے ایک دکاندار رحمان شاہ نے بتایا کہ میرا بیٹا دارالعلوم میں تھا اور ہمارا خیال تھا کہ وہ قرآن کی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ ایک روز طالبان نے ہمیں مطلع کیا کہ میرا بیٹا ایک خودکش حملے میں حصہ لینے جا رہا ہے جس سے ہم اداس ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے طالبان سے اپنے بیٹے جاوید کی زندگی کی بھیک مانگی۔ بالآخر طالبان نے میرے بیٹے کو چھوڑ دیا۔
تاہم شاہ نے بتایا کہ طالبان کی جانب سے ذہنی خیالات تبدیل کرنے کے بعد میرا بیٹا ناخوش تھا اور وہ ہر قیمت پر خود کو اڑانے کا خواہش مند تھا۔
چودہ سالہ جاوید کے اہل خانہ اسے پشاور لے گئے اور اسے تفریح، فلموں، بازاروں اور شہری زندگی کی عام تفریحات سے روشناس کرایا تاکہ طالبان کی تنہائی اور ذہنی خیالات تبدیل کرنے کے اثرات زائل ہو سکیں۔
اب حال ہی میں جاوید کا کہنا ہے کہ میں قائل ہو گیا ہوں کہ میں غلط تھا اور مجھے اپنے غریب والدین کی مدد کرنے کے لئے تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔
بمبار کی تربیت کے لئے بچوں کا اغوا
اس کے علاوہ طالبان گلیوں میں پھرنے والے غریب بچوں کو اغوا کر کے بھی انہیں خودکش بمبار بناتے ہیں۔
سیاسی انتظامیہ کے تحصیل دار شعیب خان نے مارچ میں بتایا کہ باجوڑ میں گزشتہ دو ماہ کے دوران 11 سے 15 سال کی عمروں کے چار بچے لاپتہ ہو چکے ہیں۔ ان کے والدین کو یقین ہے کہ ان کے بچوں کو طالبان نے اٹھایا ہے کیونکہ وہ سب غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔
شعیب نے بتایا کہ طالبان عام طور پر امیر والدین کے بچوں کو اغوا کرکے ان سے تاوان وصول کرتے ہیں جبکہ غریب والدین کے بچوں کو خودکش بمبار بننے کی تربیت دی جاتی ہے۔
انٹیلیجنس عہدیداروں نے بتایا کہ حکام نے ضلع دیر سے اغوا کیے گئے تین بچوں کا جنوبی وزیرستان کے ایک تربیتی کیمپ میں سراغ لگایا۔ والدین نے اپنے بیٹوں کی رہائی کی التجا کی تھی اور بالآخر ہر بچے کے لئے ایک لاکھ روپے (1 ہزار 1 سو 76 ڈالر) تاوان ادا کیا گیا۔
تاہم دیگر افراد کو اپنے بچوں کی قسمت کا حال بہت دیر سے معلوم ہوتا ہے۔ خیبر پختونخواہ کے ضلع چارسدہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے رہائشی جمعہ خان نے بتایا کہ اگست 2009 میں ایک جہادی دھڑے کے درجن بھر افراد میرے گھر آئے اور مجھے 1 لاکھ روپے (1 ہزار 1 سو 76 ڈالر) پیش کیے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے نے افغانستان میں ایک کامیاب خودکش بم حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں نیٹو کے 14 فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔
جمعہ کا بیٹا 15 سالہ عبد الرؤف اس سال فروری میں لاپتہ ہو گیا تھا۔ خان نے بتایا کہ گروپ نے مجھے مبارک باد دی کہ میرا بیٹا جنت کا حق دار بن گیا ہے۔ میں نے رقم واپس کر دی اور خاموش رہا کیونکہ کسی قسم کا شور شرابہ کرنے پر میرے باقی تین بیٹوں کی زندگیاں ابتر ہو سکتی تھیں۔
رؤف کے بڑے بھائی جہانداد نے بتایا کہ وہ اس قسم کا لڑکا نہیں تھا کہ بے گناہ افراد کو ہلاک کرے۔ رؤف دسویں جماعت میں زیر تعلیم تھا مگر غربت کے تاریک سائے ہمیشہ ہمارا پیچھا کرتے رہتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ عسکریت پسندوں نے اسے رقم وغیرہ کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا ہو اور بعد میں اس کے ذہنی خیالات تبدیل کر دیے ہوں۔
مبینہ طور پر سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے طالبان عسکریت پسند قاری حسین نے ایک بار دعوٰی کیا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کے پاس 2 سو 50 سے زائد خودکش بمبار ہیں جو اس کے اشارے پر اپنی جانیں فدا کرنے کو تیار ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کی اکثریت نوعمر بچوں پر مشتمل ہے۔
والدین بے یارومددگار ہیں
فاٹا کے سابق سیکرٹری سلامتی محمود شاہ نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا کہ عسکریت پسندوں نے مالاکنڈ، درہ آدم خیل، جنوبی وزیرستان اور باجوڑ قبائلی ایجنسیوں کی گلیوں سے متعدد بچوں کو اغوا کر لیا ہے مگر ان کے والدین طاقتور طالبان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں بہت سے ایسے خاندانوں کا علم ہے جن کے بچے لاپتہ ہو چکے ہیں مگر وہ پولیس کو اطلاع دینے سے خوفزدہ ہیں۔
ٹانک میں ممریز نامی ایک اسکول استاد نے بتایا کہ گزشتہ سال 8 اگست کو بعض نامعلوم افراد نے 8ویں جماعت کے طالب علم میرے 13 سالہ بھائی جنگریز کو اغوا کر لیا۔ ہمیں علم تھا کہ اسے طالبان نے اغوا کیا ہے مگر ہم خاموش رہے کیونکہ ہم طاقتور انتہاپسندوں کو نہیں للکار سکتے۔ رواں سال جنوری میں ہمیں طالبان نے بتایا کہ جنگریز نے ضلع ہنگو میں ایک خودکش حملے کے دوران متعدد پولیس اہلکاروں کو ہلاک کیا تھا۔

No comments:

Post a Comment