نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) کراچی میں طالبان سٹریٹ فورس بن چکے ہیں،وہ اس شہر میں دہشت کو پھیلا کر ایک نئے گینگز کے طور پر سامنے آگئے ہیں،شہرقائد میں طالبان کا زیادہ اثرورسوخ پشتون آبادیوں پر ہے اوراِنہی علاقوں میں سے سیاسی پارٹیوں کو بھی اُنہوں نے نکال باہرکیاہے ،کراچی میںطالبان کے تین گروہ ہیں، نئے گینگ وار نے قدم پھیلا لیے ہیں ، اور تقریباً تمام گروپوں کو شکست دی ۔ امریکی اخبار”نیویارک ٹائمز“کے مطابق کراچی کے کئی علاقوں میں طالبان ہی سب سے غالب قوت ہیں،اپنی عدالتیں قائم کر رکھی ہیں، وہ بھتے کے ریکٹ چلاتے ہیں اور شہر میں دہشت گرد حملے کرتے ہیں۔امریکی اخبار کے پولیس اور عسکریت پسند ذرائع کے مطابق کراچی میں تین قسم کے طالبان کارروائیاں کر رہے ہیں، طاقتور گروپ کا تعلق جنوبی وزیر ستان کے محسود قبائل سے ہے جبکہ دو دیگر کا تعلق سوات اور مہمند علاقے سے ہیں۔اعلیٰ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ان طالبان کو قبائلی پٹی سے احکامات دیئے جاتے ہیںجبکہ مقامی مجرم گروپ بھی اپنی طاقت کا مظاہر ہ کرنے کیلئے خود کو طالبان ظاہرکرتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق کراچی میں طالبان کی آمد کو کچھ لوگ قبائلی علاقے میں آپریشن بتاتے ہیں اور کچھ خلیجی ریاستوں سے فنڈنگ نہ ہونا۔ اخبار کے مطابق کراچی میں پچاس لاکھ پشتون آباد ہیں اور طالبان کا اثر انہی کی آبادیوں میں ہے۔ پچھلے ایک سال کے دوران ان علاقوں سے عوامی نیشنل پارٹی کو نکال دیا گیا ہے۔ پارٹی کے سندھ کے صدر شاہی سید کے مطابق پچھلے چند ماہ میں ان کی پارٹی نے تیس دفاتر خالی کیے ہیں، وہ طالبان کے نمبر ون دشمن ہیں۔ اخبار کے مطابق کراچی کے لئے جرائم پیشہ گینگز کے پر تشدد واقعات کوئی نئی بات نہیں جہاں مسلح گروپ رقم،زمین پر قبضہ اور ووٹ کے لئے برسرپیکار رہتے ہیں لیکن اب شہر میں ایک نئے گینگ پاکستانی طالبان نے اپنے زبردستی قدم پھیلا دیئے ہیں اور وہ سر عام زمینوں پر قبضے کر رہے ہیں،انہوں نے تیزی سے بھتا ریکٹ قائم کیے جس میں انہوں نے بزنس مینوں اور تاجروں کا ٹارگٹ کیا ۔ کراچی میں اسٹریٹ وار کا حصہ بنتے ہوئے طالبان نے مقابلہ کرتے مجرمانہ ،نسلی اور سیاسی مسلح گروپو ں کے طویل عرصہ سے قائم وسیع نیٹ ورک کو شکست دے دی ہے جس سے واضح ہے کہ طالبان کا ایجنڈا وسیع ہے ،وہ پاکستانی ریاست کو زبردستی ختم کرنا چاہتے ہیںاور ان کی کارروائیوں کو افغان سرحد سے چلایا جا رہا ہے۔
Showing posts with label KARACHI. Show all posts
Showing posts with label KARACHI. Show all posts
July 3, 2014
November 10, 2013
ڈی ایچ اے کی جانب سے تحفظ کے جامع منصوبے کا آغاز علاقے کو عسکریت پسندوں کی در اندازی کے خلاف محفوظ بنانے کے لیے ڈی ایچ اے کے حکام گھر گھر جا کر علاقے میں رہائش پذیر افراد اور کاروباری اداروں کا دستاویزی ریکارڈ تیار کر رہے ہیں اور سیاسی جماعتوں کے دفاتر کو بند کرا رہے ہیں۔
راچی – کراچی کے ایک بڑے رہائشی علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے حکام اپنی حدود میں عسکریت پسندوں کے امکانی خطرات کے ردعمل میں علاقے کے رہائشیوں اور کاروباری اداروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی خاطر فیصلہ کن اقدامات اٹھا رہے ہیں۔
اتھارٹی کے ترجمان ریٹائرڈ کرنل رفعت حسین نقوی نے رواں ماہ کے اوائل میں سینٹرل ایشیا آن لائن سے گفتگو میں کہا تھا کہ ڈی ایچ اے نے رہائش گاہوں اور کاروباری اداروں کے سروے کا آغاز کر دیا ہے۔ ان کے بقول اس اقدام کا مقصد ڈی ایچ اے کی حدود میں عسکریت پسندوں کی امکانی موجودگی کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اطلاعات ملی ہیں کہ عسکریت پسند ان علاقوں میں گھس گئے ہیں جو ڈی ایچ اے کی حدود میں آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نا پسندیدہ عناصر کو اپنے علاقوں سے دور رکھنے کے اقدامات اٹھائیں گے۔
کرنل نقوی نے کہا کہ ہماری درجنوں ٹیموں نے 29 جولائی سے گھر گھر سروے کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد رہائشی علاقوں میں رہنے والے ہر شخص، کاروباری مراکز اور ڈی ایچ اے کی حدود میں رہنے یا وہاں کام کرنے والے تمام افراد کے بارے میں بنیادی معلومات جمع کرنا ہے۔ سروے سے جمع ہونے والی معلومات کا تجزیہ کیا جا رہا ہے اور اسے ایک کمپیوٹرائزڈ ڈیٹابیس میں محفوظ کر دیا جائے گا تاکہ کسی ناگہانی صورت حال میں پولیس اور رینجرز فوری کارروائی کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈی ایچ اے میں تحفظ کی فراہمی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ انہوں نے عوام پر زور دیا کہ وہ تحفظ کے ان منصوبوں میں تعاون کریں۔
حفظ ماتقدم کے طور پر سیاسی جماعتوں کے دفاتر کی بندش
نقوی نے کہا کہ تحفظ میں اضافہ کرنے اور امکانی خطرات کے خاتمے کے لیے حکام نے حال ہی میں ڈی ایچ اے میں موجود سیاسی جماعتوں کے دفاتر کو بند کرا دیا ہے۔ ان کے بقول ان دفاتر کی موجودگی حدود کے قواعد کی خلاف ورزی تھی۔
انہوں نے کہا کہ 11 مئی کے انتخابات سے قبل بعض سیاسی جماعتوں نے غیر قانونی طور پر اپنے دفاتر قائم کر لیے تھے جس کے نتیجے میں سلامتی کے مسائل پیدا ہو رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ بعض سیاسی جماعتیں عسکریت پسندی کی حمایت کرتی ہیں جبکہ دیگر اس کا ہدف بنتی ہیں۔
کرنل نقوی نے بتایا کہ اتھارٹی نے اس کے بعد سے سیاسی جماعتوں سے کہا ہے کہ وہ بوریا بستر گول کریں، دفاتر کو بند کر دیں اور علاقے میں کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی سے احتراز کریں۔
انہوں نے واضح کیا کہ اس کا مقصد ڈی ایچ اے کو دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر سے محفوظ رکھنا ہے۔
رہائشیوں کی جانب سے اس منصوبے کا خیر مقدم
ڈی ایچ اے کے بیشتر رہائشی اور کاروباری مالکان سلامتی کے خدشات کے بارے میں آگاہ ہیں اور اپنے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے حکام کی کوششوں کی تائید کرتے ہیں۔
ڈی ایچ اے کے رہائشی ڈاکٹر رامیش بھروانی نے سینٹرل ایشیا آن لائن سے گفتگو میں کہا کہ اس طرح کے پیشگی حفاظتی اقدامات ڈیفنس کے علاقوں کو دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر سے محفوظ رکھنے کے حوالے سے اہم ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈی ایچ اے کی حفاظتی مہم پٹیل پاڑہ میں حال ہی میں پیش آنے والے ایک واقعے کے بعد شروع ہوئی ہے۔ اس واقعے میں ایک گھر کے اندر چھپے ہوئے عسکریت پسند بم بنانے کی کوشش کر رہے تھے کہ اچانک دھماکہ ہو گیا۔
جرائم کی تحقیقات کے محکمے کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس محمد فیاض خان نے کہا کہ 20 جولائی کو ہونے والے دھماکے میں لشکر جھنگوی کے تین اراکین مارے گئے جبکہ عمران نامی ایک زخمی ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
عمران نے پولیس کو تفتیش کے دوران بتایا کہ لشکر جھنگوی کے ہلاک ہونے والے اراکین میں سے ایک متین الدین نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہہ کی شہادت کی یاد میں منائے جانے والے دن یوم علی کے موقع پر نکلنے والے جلوسوں پر حملوں سے چھ ماہ قبل یہ گھر کرایے پر لیا تھا۔
ماضی میں کراچی میں ہدف بنا کر کی گئی کارروائیوں کے بعد جرائم پیشہ عناصر نے اپنے خفیہ ٹھکانے ڈی ایچ اے منتقل کر دیے تھے۔
ماضی میں ڈی ایچ اے میں عسکریت پسندوں کے حوالے سے پیش آنے والے واقعات میں دسمبر 2011 میں پولیس کے ہاتھوں کراچی میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ قاری شاہد کی ہلاکت، ستمبر 2011 میں سی آئی ڈی کے سربراہ چوہدری اسلم کی رہائش گاہ پر خودکش ٹرک بم دھماکہ (جس میں وہ محفوظ رہے) اور اکتوبر 2010 میں عبد اللہ شاہ غازی کے مزار پر دو خودکش بم دھماکے شامل ہیں۔
خان نے سروے منعقد کرنے کے فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس سے حکام کو ڈی ایچ اے کے رہائشیوں اور کاروباری اداروں کو ہر ممکن حد تک بہترین تحفظ فراہم کرنے کا موقع ملے گا۔
June 30, 2013
Who is Behind Karachi Killings?
April 23, 2013
April 3, 2013
Karachi Killings & Political Alliance with Mafias.
Karachi Killings & Political Alliance with Mafias.
The verdict asked the government to ensure smooth running of economic and commercial activities in the city by taking steps against illegal shutter-downs and strikes which paralysed normal life of citizens and caused losses of billions of rupees in one day. “Therefore, the government and political parties should evolve a respectable way out to avoid such a situation in future. Violence in Karachi this year as well as in the past was not ethnic alone, but a turf war between different groups having economic, socio-politico interest to strengthen their position or aggrandisement, based on the phenomenon of tit-for-tat with political, moral and financial support or endorsement of political parties claiming their representation on behalf of public of Karachi, including components and non-components of the provincial government,” it said. The verdict said: “The recent violence in Karachi represents unimaginable brutalities, bloodshed, kidnapping and throwing away dead bodies and torsos in bags; as illustration, indicating toll of 306 lives in one month; detection of torture cells video; receiving bhatta to strengthen the ranks of one group against the other; grabbing land; drug mafia, etc, destroying moveable and immovable properties of the citizens, establishes that the fundamental rights of the citizens enshrined in Articles 9, 14, 15, 18 and 24 of the Constitution have not been protected by the provincial government. “This failure has made the lives and properties of the citizens insecure; the federal government also failed in protecting Sindh against internal disturbance while the Sindh government also failed to carry out functions in accordance with the provisions of the Constitution.”
Subscribe to:
Posts (Atom)